جیمز برنس سندھ کے دربار میں
جیمز برنس سندھ کے دربار میں
تحریر و تصاویر: ابوبکر شیخ
کچھ دن پہلے ہی بارشوں کا سلسلہ تھما تھا۔ اب دن بھی تھوڑے گرم ہیں۔ گہری چُپ چھائی ہوئی ہے۔ آسمان سے گزرتی کونجوں کی ڈار اپنی مدھر آوازیں جہاں کانوں میں رس گھولتی ہے وہیں گہری خاموشی کو توڑ دیتی ہیں۔
وہاں موجود جھیل کے کنارے گھاس پھوس کے جنگل اُگے ہیں۔ پرندوں کے جھنڈ جھیل پر اترتے ہیں۔ سرکنڈوں پر دودھ جیسے سفید پھول کھلنے میں ابھی کچھ دن باقی ہیں۔ کچھ دن سے شمال کی ہواؤں کے شرمیلے جھونکے بھی ترسا ترسا کر جسم کو چھوئے جاتے ہیں۔
مگر سمندر کا کہرا شمال کی ہواؤں کو بھگا دیتا ہے۔ اچانک جنوب مغرب کی طرف سے کسی قافلے کی آوازیں بلند ہوتی ہیں۔ کچھ گھوڑے اور اونٹ ہیں، جن میں سے اکثر پر سامان لدا ہوا ہے۔ کچھ گھوڑوں پر لوگ سوار ہیں اور باقی پیدل چل رہے ہیں۔ یہ تقریباً 100 افراد پر مشتمل قافلہ ہے۔ وہ جس راستے پر گامزن ہو رہے ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان لوگوں کی منزل ’رڑی‘ نامی چھوٹا سا قصبہ ہے۔ یہ ’جیمز برنس‘ نامی برطانوی سرجن کا قافلہ ہے جو ’کَچھ‘ سے نکلا ہے اور حیدرآباد جا رہا ہے۔
جب سرجن جیمز ’بھج‘ میں برٹش راج کے لیے اپنی خدمات انجام دے رہے تھے انہی دنوں، بتاریخ 23 اکتوبر 1827ء، برٹش راج کو سندھ کے حکمران تالپوروں کا خط موصول ہوا تھا جس میں لکھا تھا کہ میر حکمرانوں میں سے ایک مراد علی شدید بیمار ہیں اور گزارش کی گئی کہ علاج کی غرض سے جیمز برنس کو سندھ بھیجا جائے۔
اس خط پر برنس صاحب کا ردِ عمل کچھ یوں تھا، ’میں اس بلاوے پر بے حد خوش تھا اور اس انتطار میں تھا کہ سرحد کے اس پار جا کر سندھ کے تاریخی دریا کو دیکھوں، اس لیے یہ دعوت مجھے عزیز تھی اور خوشگوار محسوس ہوئی‘۔
اب چونکہ برنس لکھاری نہیں تھے اس لیے ہمیں ’رچرڈ برٹن‘ کی طرح ان سے منظرناموں کی عکاسی کی کوئی امید نہیں رکھنی چاہیے۔ وہ ہر بات سیدھی کرتے ہیں۔ اگر کسی شے یا منظرنامے سے زیادہ متاثر یا پریشان ہوتے ہیں تو چند لفظوں میں اپنی کیفیت کا اظہار کردیتے ہیں۔ انہوں نے 2 سے 3 ماہ سندھ کی زمین پر گزارے۔
مگر یہ عرصہ تاریخی اعتبار سے اہم یوں بھی تھا کہ میر حکمران کی 40 سالہ حکمرانی کا عروج ماند پڑچکا تھا۔
اگر ہم برنس صاحب کے اس سفرنامے کا بغور مطالعہ کریں تو باتوں باتوں میں ہمیں وہ حقائق بھی پتا چلتے ہیں جن سے واضح ہوجاتا ہے کہ 19ویں صدی کی پہلی چوتھائی میں ان کے زوال کا آغاز ہوچکا تھا۔ چنانچہ یہ کتاب ان وقتوں کے سندھ کے حالات سمجھنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔