دنیا کے مختلف حصوں میں منعقد ہونے والے یہ 3 انتخابات اور مسلمانوں سے نفرت کی تاریخ رکھنے والے سخت گیر سیاستدانوں کی انتخابی کامیابی اور دوسری بار ممکنہ کامیابی ہر ایک کے لیے باعثِ تشویش ہونی چاہیے۔
اگر تفصیل سے جائزہ لیا جائے تو ان ممالک میں جتنے مسلمان دہشتگرد کارروائیوں میں پکڑے گئے ہیں وہ اتنے قلیل ہیں کہ انہیں انگلیوں پر بھی گنا جاسکتا ہے، لیکن اس کے نتائج لاس اینجلس سے دہلی تک پھیلے کروڑوں مسلمانوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ ان مسلمانوں کے بچے جہاں پیدا ہوئے اور پوری دنیا میں جس ایک ملک کو اپنا گھر پکارا ان سے وہیں اسی سرزمین پر ناگوار اور امتیازی سلوک روا رکھا گیا۔
حالات کی بہتری کی امید صرف اسی وقت رکھی جاسکتی ہے جب ان انتخابی معرکوں میں مسلمانوں سے نفرت کا نعرہ گھس پٹ جائے گا اور خوفزدہ آبادی کو یکجا کرنے کے لیے زیادہ کارگر ثابت نہیں ہوگا۔
اس مرتبہ انتخابات کے نتائج بھلے ہی اپنے ساتھ نہایت بُری خبریں لائے ہوں (امریکی صدارتی انتخابات کے نتائج کیسی خبر لاتا ہے یہ کچھ ہی عرصے میں پتا چل جائے گا) لیکن اگر اس مرتبہ اسلاموفوبیا کی فضا قائم کرنے اور ہر چیز کا الزام مسلمانوں پر دھرنے سے مدد ملی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اگلی بار بھی ان ہتھکنڈوں سے ووٹروں کی توجہ حاصل کرلی جائے گی۔
بلاشبہ ان تینوں ملکوں کے مسلمان باشندوں کے لیے یہ کوئی اچھی خبر نہیں ہے، اور اچھے دنوں کے لیے 4 سے 5 برس کا انتظار بہت ہی کٹھن ثابت ہوسکتا ہے۔
یہ مضمون 18 دسمبر 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔