مجھے یہاں ٹیلی میٹری سسٹم کی کہانی یاد آگئی جسے واپڈا نے 2000ء کی دہائی کے دوران دریائے سندھ پر نصب کیا تھا۔ سندھ کے بڑے بڑے جاگیرداروں نے اس سسٹم کی زبردست مخالفت کی تھی کیونکہ اس سسٹم نے بہاؤ کا درست ڈیٹا فراہم کرنا شروع کردیا تھا جس کی مدد سے یہ معلوم ہوگیا تھا کہ پانی کی چوری کہاں کہاں ہو رہی ہے۔ پھر یہ ہوا کہ اس سسٹم کو فوری طور پر اکھاڑ کر پھینک دیا گیا۔
سیمی کمال کہتی ہیں کہ ’پاکستان کو آبی وسائل سے متعلق درست اعداد و شمار اکھٹا کرنے کے لیے معیاری طریقے اپنانا ہوں گے جبکہ موجودہ ڈیٹا بیس تک تحقیقی اداروں اور اعلیٰ تعلیم کو رسائی دینا ہوگی تاکہ پانی سے متعلق علمی خزانے میں اضافہ کیا جاسکے۔ ہم چاہتے ہیں کہ بہترین اذہان ان مسائل پر غور و فکر کریں اور حکومت کو ان کا بہتر حل تجویز کریں۔ مگر چونکہ یہ سارے معاملات ساکن ہیں اس لیے ہمارے پاس ایسے قابلِ اعتبار اعداد و شمار دستیاب نہیں جن سے پتا لگایا جاسکے کہ پانی کی کھپت میں زراعت کا کتنا حصہ ہے‘۔
آبی مسائل کا مختصر خاکہ کچھ یوں ہے۔ جن عالمی اداروں نے بھی ملک کی آبی صورتحال کا جائزہ لیا ہے ان میں سے تقریباً ہر ایک کے مطابق پاکستان کی آبی معیشت سال 2025ء سے خشک ہونا شروع ہوجائے گی۔ پانی کی یہ قلت ملک کو خانہ جنگی کی طرف بھی لے جاسکتی ہے۔ چنانچہ ایسے نتائج سے بچنے کے لیے ہمیں ان افراد سے مدد لینا ہوگی جو ان مسائل پر بہترین رائے دے سکتے ہیں اور پہلے قدم کے طور پر ہمیں معقول پیمائش ممکن بنانی ہوں گی۔
ورنہ دیکھ لیجیے، ہمارے ملک میں فیصل واڈا آبی وسائل کے وزیر ہیں، جو میز تک سوائے بوٹ کے اور کچھ نہیں لائے ہیں۔ چنانچہ جب اس حرکت کا مذاق اڑانے سے ہمیں فرصت مل جائے تو یہ سوال ایک بار پھر پوچھ لینا چاہیے کہ ’آخر کس میرٹ کی بنیاد پر انہیں اس وزارت کا قلمدان سونپا گیا؟‘
یہ مضمون 16 جنوری 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔