لکھاری ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں۔
لکھاری ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں۔

جب ملک کا وزیر برائے آبی وسائل روزانہ لیٹ نائٹ ٹی وی شوز میں آکر خود کو مسخرا بنانے میں مصروف ہوگا تو ایسے میں کون اس بات کو یاد رکھنا چاہے گا کہ پاکستان میں پانی کی قلت کا مسئلہ سنگین ترین صورت اختیار کرچکا ہے۔

عمران خان نے قوم سے کیے گئے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ اس وقت پانی کا سنگین ترین مسئلہ ہے، پھر وزیرِاعظم کو نہ جانے کیا سوجھا کہ اپنے اس خطاب کے محض 2 ہفتوں بعد فیصل واڈا کو پانی کا وزیر لگا دیا۔ حالانکہ عمران خان نے دھرنے کے دوران اپنی تقریروں میں بارہا اس بات کا اظہار کیا تھا کہ تقرریوں میں میرٹ کو بحال کیا جائے گا۔ سمجھ نہیں آتا کہ واڈا کو کس میرٹ کی بنیاد پر اس وزارت کا قلمدان دے دیا گیا ہے جسے قدرتی گیس کے بعد اہم ترین قدرتی ذرائع تصور کیا جاتا ہے۔

جب جہانگیر ترین سے پوچھا گیا تھا کہ وہ اس اہم ترین وزارت کے لیے فیصل واڈا کے اتنخاب کو کس طرح درست قرار دیتے ہیں تو انہوں نے تھوڑی بہت ایمانداری کے ساتھ یہ جواب دیا کہ واڈا نے ’پارٹی کے لیے بہت کام ہے‘۔

اگر کسی وجہ سے لوگوں کو اب بھی ملک میں پانی کی قلت سے متعلق سنگینی کا اندازہ نہیں ہوسکا ہے تو میں ان کی توجہ 2 شخصیات کی طرف دلانا چاہوں گا جنہوں نے اس مسئلے کی آگاہی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان میں سے ایک ہیں ذوفین ابراہیم، جو صحافی ہیں اور اپنی رپورٹس کے ذریعے اس مسئلے کو زندہ رکھے ہوئے ہیں، جبکہ دوسری شخصیت سیمی کمال ہیں جو ایک آبی ماہر ہیں، اور ان کا کام مسئلے کی نوعیت، اس کے حل کے لیے مطلوبہ پالیسیوں اور اس مسئلے سے بُری طرح متاثرہ علاقوں کی نشاندہی کرتا ہے۔

رائٹرز نے ذوفین ابراہیم کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیا جس میں سندھ کی رکن صوبائی اسمبلی تنزیلہ قمبرانی کا بیان بھی شامل ہے۔ تنزیلہ کہتی ہیں کہ ’ڈیلٹا میں سمندر تیزی سے ہماری زمین نگلتا جا رہا ہے۔ حکومت کے لیے اب یہ لازم ہوچکا ہے کہ وہ فوری طور پر ایک کارآمد منصوبہ بندی کے ساتھ آگے آئے، کیونکہ اگر ایسا نہیں ہوا تو ہمارے ملک کو ماحولیاتی پناہ گزینوں کی ایک بڑی آبادی کا بوجھ برداشت کرنا پڑے گا‘۔

پہلے ہی غربت اور جنگ سے بچنے کے لیے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شہروں کی طرف نقل مکانی شروع کر رکھی ہے، اور ممکن ہے کہ اب ماحولیاتی پناہ گزینوں کی صورت میں لوگوں کی بھاری تعداد شہروں کا رخ کرلے۔ لیکن ماحولیاتی مسائل سے مجبور ہوکر لوگ پہلے ہی احتجاجی مظاہرے کر رہے ہیں، انہی میں سے ایک احتجاجی مظاہرے کو ذوفین ابراہیم نے کور کیا، جن کی تفصیلات آپ ان کی مکمل رپورٹ میں جان سکتے ہیں۔

جب چند افراد نے ڈیلٹائی علاقے میں اپنی زرعی زمینوں پر مسلسل سمندری پانی کی چڑھائی دیکھی تو ان کے برداشت کا پیمانہ لبریز ہوا اور انہوں نے احتجاجی مظاہرے کے لیے 140 کلومیٹر دُور ٹھٹہ تک پیدل مارچ کا فیصلہ کیا۔ جب مارچ شروع ہوا اس وقت شرکا کی تعداد 40 یا 50 تھی، لیکن اطلاعات کے مطابق ٹھٹہ تک پہنچتے پہنچتے شرکا کی تعداد 1500 تک پہنچ چکی تھی۔

مارچ کے شرکا نے خود کو لاحق پانی کی سنگین قلت کے مسائل کی مختلف وجوہات بیان کیں۔ چند نے ذوالفقارآباد منصوبے کو اس کی وجہ ٹھہرایا اور کہا کہ پانی کی مصنوعی قلت پیدا کرکے انہیں جگہ خالی کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔

دیگر نے اس کا ذمہ دار ماحول بالخصوص شمال میں موسمِ بہار کے آخری دنوں میں کم درجہ حرارت کے باعث برف پگھلنے کی شرح میں کمی کو ٹھہرایا، جس کی وجہ سے نیچے دریائے سندھ میں پانی کے بہاؤ میں کمی آجاتی ہے۔ مارچ کے چند شرکا نے دریا کے بالائی بہاؤ بالخصوص پنجاب میں پانی چوری کی شکایت بھی کی۔

پانی کی قلت کی اصل جڑ کیا ہے؟ اس حوالے سے شرکا کے پاس یکساں اور واضح خیال نہیں تھا بلکہ ہر ایک نے اپنی سوچ کے زاویوں کے مطابق اپنے اپنے نظریے قائم کیے ہوئے تھے۔

خیر حقیقت کچھ بھی ہو، لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پانی کی قلت نے لوگوں میں تحرک پیدا کیا، احتجاجی مظاہرہ کروایا، اور طاقتور سیاست حرکت میں آئی۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جائے گا اور اس قلت میں مزید سنگینی آتی جائے گی ویسے ویسے فصلوں کی سائیکل اس نہج تک متاثر ہوگی جہاں لوگوں کا ذریعہ معاش خطرے میں پڑجائے گا، پھر احتجاجی مظاہرے پُرتشدد شکل اختیار کرلیں گے اور حالات کو سمجھانے کی غرض سے پیش کیے جانے والے بیانیے اس قدر اختلافی ہوں گے کہ جسے سیاسی طور پر سنبھالنا آسان نہیں ہوگا۔ مختصراً یہ کہ ایک طویل تنازع کے لیے راہیں ہموار ہوجائیں گی۔

آج ہم مسئلے سے نمٹنے کے لیے کیا کچھ کرسکتے ہیں؟ یہاں سیمی کمال کا کام ہمارے لیے مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ اس مارچ کے انعقاد سے چند ہفتے قبل انہوں نے ایک مقامی اخبار کو انٹرویو دیا تھا۔ انٹرویو کے دوران انہوں نے سب سے پہلے پانی کے شعبے میں اعداد و شمار کے فقدان کی طرف توجہ دلائی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’جیسا کہ آپ جانتے ہیں واپڈا کئی برسوں سے بے حرکت ادارہ بنا ہوا ہے۔ گزشتہ 20 برسوں سے پانی کے وسائل اور ان کے استعمال کے حوالے سے تحقیقی کام کی شدید کمی نظر آتی ہے‘۔

ہمارے دریائی نظام میں پانی کہاں سے آتا ہے اور کہاں جاتا ہے؟ اس حوالے سے ہم بڑے ہی سادہ ترین تصورات رکھتے ہیں۔ یعنی ہم سمجھتے ہیں کہ دریائی نظام میں پانی صرف برسات، برف یا گلیشیئرز پگھلنے کی وجہ سے آتا ہے اور یہ پانی زراعت یا شہروں میں استعمال ہوجاتا ہے۔ ہمارے پاس جتنے بھی اعداد و شمار ہیں ان کی پیمائش دہائیوں قبل پہلے لگائے گئے اندازوں کی بنیاد پر ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’مسئلہ رویوں میں ہے۔ بیوروکریٹس شاذ و نادر ہی نجی شعبے سے تعلق رکھنے والے مختلف موضوعات کے ماہرین پر توجہ دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ چونکہ سیاسی معیشت پر اشرافیہ قابض ہے اس لیے اقتدار میں بیٹھے افراد اعداد و شمار کو عوام کے سامنے لانے سے کتراتے ہیں کیونکہ وہ ان کے حد سے زیادہ استعمال کے نتائج سے خائف ہیں۔

مجھے یہاں ٹیلی میٹری سسٹم کی کہانی یاد آگئی جسے واپڈا نے 2000ء کی دہائی کے دوران دریائے سندھ پر نصب کیا تھا۔ سندھ کے بڑے بڑے جاگیرداروں نے اس سسٹم کی زبردست مخالفت کی تھی کیونکہ اس سسٹم نے بہاؤ کا درست ڈیٹا فراہم کرنا شروع کردیا تھا جس کی مدد سے یہ معلوم ہوگیا تھا کہ پانی کی چوری کہاں کہاں ہو رہی ہے۔ پھر یہ ہوا کہ اس سسٹم کو فوری طور پر اکھاڑ کر پھینک دیا گیا۔

سیمی کمال کہتی ہیں کہ ’پاکستان کو آبی وسائل سے متعلق درست اعداد و شمار اکھٹا کرنے کے لیے معیاری طریقے اپنانا ہوں گے جبکہ موجودہ ڈیٹا بیس تک تحقیقی اداروں اور اعلیٰ تعلیم کو رسائی دینا ہوگی تاکہ پانی سے متعلق علمی خزانے میں اضافہ کیا جاسکے۔ ہم چاہتے ہیں کہ بہترین اذہان ان مسائل پر غور و فکر کریں اور حکومت کو ان کا بہتر حل تجویز کریں۔ مگر چونکہ یہ سارے معاملات ساکن ہیں اس لیے ہمارے پاس ایسے قابلِ اعتبار اعداد و شمار دستیاب نہیں جن سے پتا لگایا جاسکے کہ پانی کی کھپت میں زراعت کا کتنا حصہ ہے‘۔

آبی مسائل کا مختصر خاکہ کچھ یوں ہے۔ جن عالمی اداروں نے بھی ملک کی آبی صورتحال کا جائزہ لیا ہے ان میں سے تقریباً ہر ایک کے مطابق پاکستان کی آبی معیشت سال 2025ء سے خشک ہونا شروع ہوجائے گی۔ پانی کی یہ قلت ملک کو خانہ جنگی کی طرف بھی لے جاسکتی ہے۔ چنانچہ ایسے نتائج سے بچنے کے لیے ہمیں ان افراد سے مدد لینا ہوگی جو ان مسائل پر بہترین رائے دے سکتے ہیں اور پہلے قدم کے طور پر ہمیں معقول پیمائش ممکن بنانی ہوں گی۔

ورنہ دیکھ لیجیے، ہمارے ملک میں فیصل واڈا آبی وسائل کے وزیر ہیں، جو میز تک سوائے بوٹ کے اور کچھ نہیں لائے ہیں۔ چنانچہ جب اس حرکت کا مذاق اڑانے سے ہمیں فرصت مل جائے تو یہ سوال ایک بار پھر پوچھ لینا چاہیے کہ ’آخر کس میرٹ کی بنیاد پر انہیں اس وزارت کا قلمدان سونپا گیا؟‘


یہ مضمون 16 جنوری 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں