’معلومات تک رسائی‘ کا قانون بے سہارا لوگوں کی آخری اُمید؟

ضلع ملتان کے نواحی علاقے کوٹلی نجابت سے تعلق رکھنے والے عبدالصمد اور اُن کے دوست گزشتہ ایک دہائی سے اپنی ملازمت سے متعلق دستاویزات کے حصول کی تگ و دو میں لگے ہیں لیکن 85 سے زائد درخواستیں دینے کے باوجود نیشنل بینک آف پاکستان (این بی پی) انہیں ان کی ملازمت سے متعلق دستاویزات فراہم نہیں کررہا۔
عبدالصمد سرلاء کے مطابق 1986ء میں انہوں نے نیشنل بینک میں کانٹریکٹ پر گارڈ کی ملازمت کا آغاز کیا اور ہر 3 ماہ بعد ان کے معاہدے (کانٹریکٹ) کی تجدید کردی جاتی تھی۔ 1993ء میں انہوں نے ادارے کو اپنی ملازمت مستقل کرنے کے لیے درخواست دی تھی تاہم اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی اور عبدالصمد کو 2003ء میں نوکری سے نکال دیا گیا جس کے بعد انہوں نے اپنی 16 سالہ ملازمت کا ریکارڈ حاصل کرنے کے لیے ریاستی بینک کو درخواست بھیجی اور درخواستیں بھیجنے کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
آئینِ پاکستان کا آرٹیکل 19 اے ہر شہری کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ کسی بھی سرکاری محکمے سے کسی بھی قسم کی معلومات اور دستاویزات حاصل کرسکتا ہے۔ اس سلسلے میں مرکز اور صوبوں نے معلومات تک رسائی کے لیے قانون سازی بھی کی ہے۔ تاہم اس کے باوجود عبدالصمد کی طرح بییشتر شہری ان قوانین سے متعلق آگاہی نہ ہونے کے باعث سرکاری دفاتر کے چکر کاٹنے پر مجبور ہیں۔
ایک سال قبل عبدالصمد سرلاء کو کسی دوست نے معلومات تک رسائی کے قانون اور اس کے طریقہ کار سے آگاہ کیا جس کے بعد انہوں نے دی رائٹ آف ایکسیس ٹو انفارمیشن ایکٹ 2017 (The Right of Access to Information Act, 2017) کے تحت نیشنل بینک آف پاکستان کو ایک مرتبہ پھر درخواست دی اور جواب نہ ملنے پر انہوں نے معلومات تک رسائی کے قانون پر عمل درآمد کے لیے قائم ’پاکستان انفارمیشن کمیشن‘ کو شکایت بھیجی۔
پاکستان انفارمیشن کمیشن نے عبدالصمد کی درخواست پر نیشنل بینک کو متعدد نوٹسز جاری کیے تاہم بینک نے کوئی جواب نہیں دیا جس کے بعد پاکستان انفارمیشن کمیشن نے 25 ستمبر 2019ء کو تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے بیینک کو 20 دن میں معلومات کی فراہمی کا حکم دیا۔
عبدالصمد نے بتایا کہ 1994ء میں سابق صدر فاروق لغاری نے ان کی درخواست پر بینک کو قانون کے مطابق ملازمت مستقل کرنے کی ہدایت کی تھی تاہم اس کے باوجود بینک نے میری ملازمت مستقلی کی درخواست پر کوئی کارروائی نہیں کی جبکہ اس دوران مبینہ طور پر سیاسی بنیادوں پر 4 ہزار سے زائد نئے افراد کو مستقل ملازمت پر رکھا گیا۔
ان کے مطابق بینک انہیں معلومات اس لیے فراہم نہیں کر رہا کیونکہ ملازمت ریکارڈ کے مطابق وہ 16 سال تک کانٹریکٹ کی بنیاد ملازمت کرچکے ہیں اس لیے سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق اب مستقل ملازمت ان کا حق ہے۔
سرکاری اداروں سے معلومات کیسے حاصل کی جاسکتی ہیں؟
- مذکورہ ایکٹ کے تحت کوئی بھی شہری کسی بھی وفاقی سرکاری محکمے سےمعلومات یا دستاویزات حاصل کرسکتا ہے۔
- معلومات کے حصول کے لیے شہری سادہ کاغذ پر درکار معلومات کی تفصیل لکھکر اپنے نام ، مکمل پتے اور رابطہ نمبر کے ساتھ متعلقہ محکمے کے افسرتعلقاتِ عامہ کو جمع کرائیں جو 10 دنوں میں مطلوبہ معلومات فراہمکرنے کا پابند ہے۔
- اگر کسی محکمے کی جانب سے افسر تعلقاتِ عامہ نامزد نہیں کیا گیا تو درخواست میں محکمے کے سربراہ کو مخاطب کیا جائے۔
- 10 دن میں معلومات موصول نہ ہونے کی صورت میں شہری پاکستان انفارمیشنکمیشن کو شکایت کرنے کے مجاز ہیں۔
- شہری شکایت سادہ کاغذ پر لکھ کر محکمے میں جمع کرائی گئی درخواست کی نقلکے ساتھ بذریعہ ڈاک یا خود جاکر پاکستان انفارمیشن کمیشن کے دفتر میںجمع کراسکتے ہیں۔ کمیشن اس شکایت پر 60 یوم میں فیصلہکرنے کے پابند ہیں۔
- پاکستان انفارمیشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ شیڈول آف کاسٹ کے مطابقمعلومات کے حصول کے لیے درخواست اور شکایت مفت جمع کرائی جاسکتی ہے جبکہمطلوبہ معلومات اگر 10 صفحات سے زیادہ ہو تو شہری محکمے کو فی صفحہ 2 روپے ادا کرنے کا پابند ہوگا اور اس رقم کی ادائیگی کی اسے باقاعدہ رسیدفراہم کی جائے گی۔
- اگرسرکاری ادارہ شہری کی درخواست پر کسی سی ڈی، یو ایس بی یا کسی بھیدوسرے برقی آلے میں معلومات فراہم کررہا ہے تو شہری اس یو ایس بی یا سیڈی کی اصل قیمت ادا کرنے کا پابند ہوگا۔
لکھاری اسلام آباد میں مقیم فری لانس صحافی ہیں۔ گورننس اور انسانی حقوق جیسے موضوعات پر ان کی متعدد تحقیقاتی رپورٹس شائع ہوچکی ہیں۔ ان سے ٹوئیٹر پر رابطہ کیا جاسکتا ہے: @theshehzad