اب حکومت کا کام یہ ہے کہ وہ اس لابنگ کا گہرائی سے جائزہ لے اور یہ فیصلہ کرے کہ کن گزارشات کو تسلیم اور کن کو مسترد کردینا ہے۔ اس کام کے لیے حاضر دماغی درکار ہوتی ہے۔ نجی شعبے کی شارکس یا سرکاری بیوروکریسی کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لیے تجربہ چاہیے ہوتا ہے، کیونکہ اگر انہیں تھوڑا بھی موقع مل جائے تو یہ اپنی مراعات، سہولیات اور بعد از ریٹائرمنٹ حاصل ہونے والے فوائد کے اخراجات کا بوجھ بھی ‘full-cost recovery’ کی صورت صارفین کے کندھوں پر ڈال دیں گے۔
گندم کے بحران کی نشانیاں کئی ہفتے پہلے ہی نظر آنا شروع ہوگئی تھیں۔ گزشتہ گرمیوں میں یہ معلوم ہوگیا تھا کہ ہمارے پاس پورے سال کی کھپت کے مقابلے میں گندم کا کم ذخیرہ ہے۔ مگر اس وقت یوں لگا کہ کسی کو اس بات کی پرواہ ہی نہیں ہے کیونکہ پرواہ کرنا کسی کا بھی کام نہیں ہے۔
حکومت کسی بھی مسئلے پر صرف اس وقت ہی بیدار ہوتی ہے جب وہ شدید بحران کی صورت اختیار کرچکا ہوتا ہے۔ حکومت کا یہی رویہ ادویات کی قیمتوں میں اضافے کے موقعے پر دیکھنے کو ملا۔ حکومت نے گندم بحران کا ذمہ دار پہلے حکومتِ سندھ، اس کے بعد منافع خوروں کو ٹھہریا اور اب وہ کچھ ایسی باتیں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ’کسی ایک آدمی کا نام بتا دیجیئے، جو روٹی نہ ملنے سے مر گیا ہو۔‘
جب معاملات کی ٹھیک سے دیکھ بھال نہ کی جاسکے تو یہی سب ہوتا ہے۔ جب وزیرِاعظم اپنے اقتدار کے دکھاوے، فیتے کاٹنے، بڑے بڑے وعدے کرنے میں مصروف ہو اور ملک واضح عزائم و اصولوں سے عاری ہو تو بیوروکریسی یا پھر نجی شعبوں کے خصوصی مفادات ملک اور اس کی دولت کو دیمک کی طرح چاٹ لیتے ہیں۔
نقصان ہونے کے بعد ہی وہ سخت احکامات جاری کرتا ہو اور فیصلہ واپس لینے کے لیے کہتا ہو۔ یہ وزیراعظم حکمرانی کے لیے موزوں نہیں ہے، اس بات کو ثابت کرنے کے لیے اور کتنے ثبوت درکار ہیں؟
یہ مضمون 23 جنوری 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔