حد تو یہ ہے کہ عالمی خبر رساں اداروں کے لیے کام کرنے والے صحافیوں کو چھوڑ کر جن مقامی صحافیوں نے بدترین دہشتگردی کے واقعات کو کور کیا ان کے پاس حفاظتی ساز و سامان بھی میّسر نہیں ہوتا تھا۔
یہ مانا کہ آج کل چند صحافی صحافیوں کا کردار ادا کرنے کے بجائے اقتداری سیاست میں کھلاڑیوں، حتیٰ کہ مہروں کا کردار نبھاتے نظر آتے ہیں، مگر ایسے چند صحافیوں کے مقابلے میں ان مرد و خواتین میڈیا کارکنان کی تعداد بہت زیادہ ہے جو مطلوبہ پیشہ ورانہ عزم کے ساتھ اپنا کام انجام دیتے ہیں اور چاہے دہشتگردی کے واقعات ہوں یا پھر کسی بحران کے بعد اَن کہے دباؤ ہو، جس کی ایک مثال ریاست کا پیدا کردہ بحران ’ڈان لیکس‘ بھی ہے۔ تاہم ایڈیٹر سے لے کر خطرناک ماحول رپورٹنگ کرنے والے رپورٹرز اور ان تمام صحافیوں کو حادثے کے بعد پہنچنے والے صدمے سے پیدا ہونے والے دباؤ سے چھٹکارے کے لیے مدد حاصل کرنے کی ضرورت پڑسکتی ہے۔
معاشی مندی کے دوران معاوضوں کی عدم ادائیگی یا تنخواہوں میں کٹوتیوں سے پیدا ہونے والے دباؤ یا صدمے پر تو کوئی بات نہیں کرتا جبکہ میڈیا پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے ریاست کے مختلف ہتھکنڈے اور میڈیا کارکنان پر اس کے اثرات نے صحافیوں کے لیے حالات مزید بدتر بنادیے ہیں۔
کراچی میں میرے سابق ساتھی صحافی اور قریبی دوست کمال صدیقی کی سرپرستی میں کام کرنے والا انسٹی ٹیوٹ آف ایکسی لینس ان جرنلزم نامی ادارہ میڈیا اداروں سے منسلک افراد کو کسی حد تک کونسلنگ فراہم کر رہا ہے لیکن میڈیا مالکان اور صحافیوں کی تنظیموں کو بھی ایسے کاموں کے لیے آگے آنا چاہیے۔
ہمارے ہاں بھی فرگل کین جیسے بہت سے صحافی ہیں اور ہمیں ان کو تحفظ کے ساتھ بہتر انداز میں مدد فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ مضمون 26 جنوری 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔