اس حوالے سے مختلف ممالک میں ویکسینز کی آزمائش اگلے ماہ سے شروع ہورہی ہے جبکہ کچھ ادویات کو بھی انسانوں پر آزمایا جارہا ہے۔
اور اب چند اور ممالک میں کورونا وائرس کی روک تھام کے حوالے سے مثبت پیشرفت کے دعوے سامنے آئے ہیں اور اہم بات یہ ہے کہ یہ روایتی ادویات یا ویکسین سے بالکل ہٹ کر ہیں۔
نیدرلینڈ نیدرلینڈ کے اراسموس میڈیکل سینٹر اور اتریچت یونیورسٹی کے سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ انہوں نے ایسی اینٹی باڈی کو دریافت کرلیا ہے جو نئے کورونا وائرس کی شناخت کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو اس سے متاثر ہونے سے بچاسکتا ہے۔
ابھی تک اسے انسانوں پر آزمایا نہیں گیا اور باقاعدہ دستیابی کے لیے ابھی کئی ماہ درکار ہوں گے۔
یہ سائنسدان دان پہلے ہی سارز کورونا وائرس کے خلاف اینٹی باڈی پر کام کررہے تھے اور جب نئے کورونا وائرس کی وبا پھیلی تو انہوں نے دریافت کیا کہ یہی اینٹی باڈیز اس وائرس کے خلاف ردعمل ظاہر کرکے انفیکشن کو روکتی ہیں۔
اس دریافت پر ابھی نظرثانی ہونا باقی ہے اور اینٹی باڈی پر تجربات بھی ہوں گے، مگر محققین کو توقع ہے کہ وہ کسی فارماسیوٹیکل کمپنی کو اس کی بطور دوا بڑے پیمانے پر پیداوار کے لیے تیار کرسکیں گے، کیونکہ یہ وائرس کو شناخت کرنے کے ساتھ اسے پھیلنے سے روکتا ہے۔
بیلجیئم اس یورپی ملک کی غینٹ یونیورسٹی اور فلیمش انسٹیٹوٹ فار بائیو ٹیکنالوجی نے بھی کووڈ 19 کے ممکنہ علاج میں پیشرفت کی ہے۔
یہ سائنسدان ایک ایسی تیکنیک پر کام کررہے ہیں جس میں ایک اینٹی باڈی کو استعمال کرکے وائرس کی سطح پر موجود ایک پروٹین کو ناکارہ کیا جاسکے گا اور اس کے لیے انسانی خلیات کو جکڑنا ناممکن ہوجائے گا۔
امریکا کی آسٹن یونیورسٹی اور جرمن پرائیمیٹ سینٹر کے اشتراک سے بیلجیئم کے سائنسدانوں نے لیبارٹری میں اس تیکنیک کی مدد سے کورونا وائرس کو ناکارہ بنانے میں کامیابی حاصل کی گئی ہے۔
یہ دریافت ویکسین نہیں کیونکہ روایتی ویکسین میں وبائی ایجنٹ کو شامل کرکے جسم میں اس کے خلاف مدافعت کو بڑھایا جاتا ہے۔
یہ نیا طریقہ علاج کسی روایتی ویکسین سے زیادہ تیز اثر ہوگا جبکہ معمر افراد جن میں اکثر ویکسینز کا اثر زیادہ موثر نہیں، ان کے لیے یہ زیادہ بہتر طریقہ علاج ہوگا۔
محققین کا کہنا تھا کہ لیبارٹری میں تیار کووڈ 19 کو ناکارہ بنانے کا طریقہ دریافت کرنے کے بعد اگلے مرحلے میں زندہ وائرس پر اس کو آزمایا جائے گا۔
بیلجیئم کی اس انسٹیٹوٹ کو بل اینڈ ملینڈا گیٹس فاﺅنڈیشن نے کووڈ 19 کی روک تھام کو یقینی بنانے کی تحقیق کے لیے منتخب کیا تھا اور محققین کا کہنا ہے کہ عام افراد کے لیے تھراپی کو فراہم کرنے کے لیے کچھ وقت درکار ہوگا، کیونکہ ابھی کافی ٹیسٹنگ ہونا باقی ہے۔
امریکا امریکا کی جونز ہوپکنز یونیورسٹی کے سائنسدانوں کو توقع ہے کہ کووڈ 19 کے شکار ہونے والے افراد کا خون اس وائرس کے پھیلاﺅ کو روکنے اور علاج کے طور پر مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔
ایک نئی تحقیق میں محققین نے وضاحت کی کہ وائرل اینٹی باڈیز کو کورونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے مریضوں کے خون سے تیار کرکے دیگر افراد میں انجیکٹ کرکے انہیں مختصر المدت تحفظ فراہم کرسکتا ہے۔
کووڈ 19 نظام تنفس کا مرض ہے جس کے دوران مریضوں کو خشک کھانسی اور سانس لینے میں مشکلات کے ساتھ بخار کا سامنا ہوتا ہے۔
مرض سے مکمل نجات کے بعد کچھ مریضوں کے پھیپھڑوں کے افعال میں 20 سے 30 فیصد کمی آسکتی ہے۔