Dawn News Television

اپ ڈیٹ 15 مئ 2020 11:04pm

حملے میں یتیم ہوجانے والے شیر خوار بچوں کو دودھ پلانے والی افغان خواتین

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں تین دن قبل 12 مئی کو سرکاری ہسپتال کے میٹرنٹی ہوم میں دہشت گردوں نے حملہ کرکے کم از کم 24 افراد کو قتل کردیا تھا جن میں 2 شیر خوار بچے اور کم از کم 20 خواتین بھی شامل تھیں۔

بین الاقوامی تنظیم ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے تحت چلنے والے سرکاری ہسپتال کے زچہ و بچہ کلینک میں دہشت گردوں کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والی زیادہ تر خواتین نے کچھ ہی گھنٹے یا کچھ دن قبل ہی بچوں کو جنم دیا تھا۔

شیر خوار بچوں اور ماؤں کے قتل کے واقعے نے نہ صرف افغانستان بلکہ پوری دنیا کے حساس دل لوگوں کو غمزدہ کردیا۔

حملے میں جو مائیں ہلاک ہوگئی تھیں، ان کے شیر خوار بچوں کو سنبھالنا ہسپتال انتظامیہ کے لیے مسئلہ تھا، کیوں کہ وہ بچے ماؤں کے دودھ کے لیے رو رہے تھے اور ان میں سے زیادہ تر بچے پاؤڈر کا دودھ بھی نہیں پی رہے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان: میٹرنٹی ہوم اور جنازے میں حملوں سے 37 افراد ہلاک

ایسے میں ہسپتال کے قریب رہنے والی اور حال ہی میں ماں بننے والی خواتین نے ان شیر خوار بچوں کی مدد کے لیے قدم بڑھائے اور ابتدائی طور پر صرف ایک ہی سرکاری ملازمہ سامنے آئیں جنہوں نے ان یتیم ہوجانے والے شیر خوار بچوں کو دودھ پلانا شروع کیا۔

افغان خبر رساں ادارے طلوع کے مطابق کابل کی رہائشی 27 سالہ فیروزہ عمر نے حملے کے چند گھنٹوں بعد یتیم ہوجانے والے شیر خوار بچوں کو دودھ پلانے کے لیے ہسپتال کا رخ کیا اور انہوں نے اہل خانہ اور ہسپتال انتظامیہ کی مدد سے دودھ کے لیے روتے بچوں کو دودھ پلایا۔

فیروزہ عمرہ سرکاری ملازم ہیں اور وہ وزارت کامرس میں ذمہ داریاں نبھاتی ہیں اور ان کی رہائش متاثرہ ہسپتال کے قریب ہی تھی۔

فیروزہ عمر خود بھی ایک 14 ماہ کے بچے کی ماں ہیں اور وہ انہیں بھی اپنا دودھ پلاتی ہیں مگر ہسپتال حملے کے بعد انہیں ماؤں سے محروم ہونے والے بچوں کا خیال آیا تو انہوں نے اپنے شوہر اور دیگر اہل خانہ کی مدد سے شیر خوار بچوں کو دودھ پلانے کا فیصلہ کیا۔

اہل خانہ اور شوہر کی اجازت اور ساتھ کے بعد فیروزہ عمر ہسپتال پہنچیں اور انہوں نے ہسپتال انتظامیہ سے شیر خوار بچوں کو دودھ پلانے کی خواہش کا اظہار کیا۔

فیروزہ عمر کے پہنچنے کے بعد ہسپتال عملے کے ارکان کی کچھ مشکلات میں کمی ہوئیں کیوں کہ عملے کی زیادہ تر خواتین روتے ہوئے بچوں کو سنبھال نہیں پا رہی تھیں۔

فیروزہ عمر نے کچھ ہی دیر میں ہسپتال میں موجود بچوں کو دودھ پلایا اور پھر وہ واپس اپنے گھر پہنچیں اور اپنے بچے کو بھی دودھ پلایا۔

یتیم ہوجانے والے شیر خوار بچوں کو دودھ پلانے کے بعد فیروزہ عمر نے دیگر خواتین کو بھی آنے کے لیے کہا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے چند دیگر نئی مائیں بننے والی خواتین بھی سامنے آئیں اور انہوں نے بھی یتیم ہوجانے والے شیر خوار بچوں کو دودھ پلانے کا کام شروع کردیا۔

ہسپتال انتظامیہ اس بات پر بہت خوش ہے کہ ہمدردی رکھنے والی خواتین صبح، دوپہر اور رات کے مختلف اوقات میں ہسپتال پہنچ کر شیر خوار بچوں کو دودھ پلا رہی ہیں۔

جو خواتین ہسپتال پہنچ کر یتیم ہوجانے والے شیر خوار بچوں کو دودھ پلانے آ رہی ہیں، ان میں سے زیادہ تر کے اپنے بچے بھی ہیں جو اس وقت دودھ پیتے ہیں تاہم اس کے باوجود وہ خواتین نہ صرف یتیم شیر خوار بچوں کو دودھ پلاتی نظر آتی ہیں بلکہ انہوں نے بچوں کو گود لینے کے عزم کا اعادہ بھی کیا ہے۔

بچوں کو دودھ پلانے آنے والی ان خواتین میں سے چند خواتین ایک ایک بچہ گود لینے کے لیے تیار بھی ہیں اور ساتھ ہی ان خواتین کا عزم ہے کہ وہ یتیم ہوجانے والے ان بچوں کے تمام اخراجات کے لیے مہم چلاکر انہیں اچھا اور محفوظ مستقبل فراہم کرنے کی کوشش کریں گی۔

افغان خبر رساں ادارے طلوع کے مطابق ہسپتال حملے میں کم از کم 20 شیر خوار بچے یتیم ہوگئے، جنہیں اب دوسری خواتین آکر دودھ پلانے کا کام کر رہی ہیں جب کہ کئی خواتین نے ان نوزائیدہ بچوں کو گود لینے کا ارادہ بھی ظاہر کیا ہے۔

Read Comments