Dawn News Television

شائع 20 مئ 2020 10:44am

اردو کے مرگ کی کہانی اور فیس بک

وہ دسمبر 2013ء کی ایک خوشگوار صبح تھی، جب ممتاز ادبی جریدے ’سیپ‘ کے مدیر، جناب نسیم درانی نے یہ پریشان کن پیش گوئی کی کہ اردو رسم الخط 4 سے 5 برس میں ختم ہوجائے گا۔

کچھ ایسے ہی اندیشوں کا اظہار اردو زبان کو ’سب رنگ‘ جیسے منفرد ڈائجسٹ کا تحفہ دینے والے شکیل عادل زادہ اور نثری نظم کے منفرد شاعر احسن سلیم بھی کرچکے تھے۔

تب یہ اندیشے بڑے حقیقی معلوم ہوتے تھے۔ اردو کو انگریزی حروف تہجی، یعنی ’رومن‘ میں لکھنے کا شہرہ تھا۔ ایس ایم ایس میں رومن لکھائی مقبول تھی۔ ہندوستان میں رومن میں اردو کتابوں کی اشاعت کی خبریں تواتر سے موصول ہورہی تھیں۔ اسی لیے جب کوئی ہندوستانی ادیب ادھر آتا، اور ہمیں اس کا انٹرویو کرنے کا موقع ملتا، تو اردو کے مستقبل اور رومن سے متعلق سوال ضرور کیا کرتے۔

دہلی سے آنے والے ہندی کے مشہور ادیب ڈاکٹر اصغر وجاہت سے یہ سوال کیا، تو کہنے لگے کہ ادھر غالب اردو سے زیادہ دیوناگری اور رومن میں پڑھا جاتا ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ ہندوستان میں ہندی ادیبوں سے زیادہ مقبول سعادت حسن منٹو ہے، اور سبب یہی کہ وہ اردو کے ساتھ ساتھ رومن اور دیوناگری میں بھی دستیاب ہے۔

اس زمانے میں پاکستان میں بھی ’رومن کتب‘ کا کلچر متعارف ہوا۔ یورپ میں مقیم اردو کے ادیبوں نے یہ تجربہ کیا۔ یہ خیال جڑ پکڑنے لگا کہ اس کی مدد سے اردو کا ادیب ہندوستان اور بنگلہ دیش میں مقیم ان کروڑوں افراد سے جڑ سکتا ہے، جو اردو بول اور سمجھ لیتے ہیں۔ پھر اس نسخے سے اردو ادب سے دُور ہونے والی نئی نسل کو بھی اس سمت لایا جاسکتا ہے کہ یہ فقط رسم الخط سے انجان ہے، بولی سے نہیں۔ وکلا تحریک میں تازہ تازہ انقلابی ہوئی یہ نسل جالب اور فیض کی نظموں کو رومن ہی میں تو پڑھا کرتی تھی جناب۔

تو صاحبو، اب سے 12، 10 برس پہلے اردو کو رومن رسم الخط میں لکھنے کے تصور نے جڑ پکڑی، تو نئی بحث نے جنم لیا۔ حامیوں کا مؤقف تو مندرجہ بالا سطروں میں آگیا، مگر مخالفین کا کہنا تھا کہ یہ چلن پُر خطر ہے، رسم الخط زبان کا لباس ہوتا ہے، ورنہ زبان بے لباس، بے وقعت ہوجائے گی، بلکہ سمجھ لیجیے بے روح قرار پائے گی، جائیں اور دفنا آئیں۔

اہم ترین خدشہ یہ تھا کہ اگر رسم الخط ختم ہوا، تو اس کا ادب فنا کے خدشہ سے دوچار ہوجائے گا اور یہ خدشہ درست تھا۔ ذرا غور کریں۔ ادیب کا براہِ راست تعلق لکھے ہوئے الفاظ سے ہوتا ہے۔ کسی خطیب یا گلوکار کے برعکس، جو بولے جانے والے الفاظ پر انحصار کرتا ہے یا کرسکتا ہے۔ ادیب کے لیے لازم ہے کہ اس کے پاس تحریر کا میڈیم ہو اور اس تحریر کو پڑھنے والا بھی دستیاب ہو۔ اچھا، اس میڈیم کی شرط جہاں اسے محدود کرتی ہے، وہیں زبان کے میدان میں اسے عظمت کی مسند بھی عطا کرتی ہے۔

تو دسمبر 2013ء کی صبح جناب نسیم درانی کا اندیشہ کچھ ایسا غلط بھی نہیں تھا، مگر چند ہی برس بعد ایک نئی صورتحال نے جنم لیا۔

ایک ایسا غیر متوقع واقعہ رونما ہوا، جس سے زبان کے بنیادی جزو، یعنی رسم الخط کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اس کی ترویج کا حیران کن اہتمام بھی ہوگیا۔ دلچسپ امر یہ تھا کہ اس اہتمام کے پیچھے نہ تو کوئی تحریک تھی، نہ ہی تحقیق، نہ ہی منصوبہ، درحقیقت یہ تو ٹیکنالوجی کی پیدا کردہ صورتحال تھی۔

یہ واقعہ اردو رسم الخط کے میدان میں گزشتہ 50 برس میں دوسرا بڑا اور اہم ترین واقعہ ہے۔ مرزا احمد جمیل کا برقیات کی دنیا میں نوری نستعلیق کو متعارف کرانا پہلا بڑا واقعہ تھا۔ اس سے پہلے خط نستعلیق کمپیوٹر پر موجود نہیں تھا اور ہم نسخ تک محدود تھے۔ ایرانیوں نے نسخ اختیار کرلیا تھا، مگر اردو پڑھنے والے خط نستعلیق کے عشق میں مبتلا تھے اور اس کے لیے کتابت کے محتاج تھے۔

تو خط نستعلیق کا کمپیوٹر پر آنا اردو رسم الخط کی تاریخ کا پہلا بڑا واقعہ تھا اور دوسرا اہم واقعہ نئے ہزاریے کی پہلی دہائی کے بعد اردو کے یونی کوڈ فارمیٹ کا اسمارٹ فونز سے ہم آہنگ ہونا تھا، جس کے بعد ان فونز پر اردو کی بورڈ، رموز و اوقاف کے ساتھ دستیاب ہوگیا۔ گوکہ یونی کوڈ فارمیٹ پرانا ہے اور یہ انٹرنیٹ کی دنیا میں اپنی جگہ بنا رہا تھا، لیکن اسمارٹ فون، جو جلد اس ملک کے باسیوں کی بنیادی ضرورت بن گیا، اس ضمن میں بہت اہم ثابت ہوا۔

یوں تو ایس ایم ایس کے چوکٹھے میں لکھی جانے والی اردو بھی اہم تھی، مگر اہم ترین تھا فیس بک کا پلیٹ فارم، جس نے ہر شخص کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ اب فیس بک کا صارف اظہار کے لیے انگریزی کا محتاج نہیں رہا تھا اور پھر آیا واٹس ایپ کا زمانہ جس کے بعد دنیا ہی بدل گئی۔ کال، میسج، سب مفت اور اردو اسکرپٹ کی واٹس ایپ پر موجودگی سے تو جیسے انقلاب آگیا۔ تو ہوا کچھ یوں

فروغِ ادب میں کردار

زبان کو پَر لگے، تو ادب کو بھی سہارا مل گیا۔ پاکستان کے بعد ہندوستان اردو کا سب سے بڑا مرکز ہے، مگر دونوں کے درمیان فاصلے اور سیاسی جبر حائل ہے۔ ٹیکنالوجی انہیں قریب لے آئی۔ ادیب سوشل میڈیا پر اردو رسم الخط کے ساتھ وارد ہوئے۔ ان کی تخلیقات ایک سے دوسری جگہ پہنچنے لگیں اور زیر بحث آنے لگیں۔ قارئین کی آرا نے، جو ادیب کے لیے اہم ترین ہے ان تک پہنچنے لگی۔

کل تک کتاب 500 کی تعداد میں شائع ہوتی اور اس کے لیے بھی خاصا اہتمام کرنا پڑتا۔ اب بغیر کچھ خرچ کیے فیس بک کے کسی افسانہ فارم ہی سے آپ کو 500 قارئین مل جاتے ہیں۔ ان میں کئی ایسے ہیں جو صاحبِ ذوق، صائب الرائے اور پھر رائے دینے کو تیار۔ (سوشل میڈیا نے سب کو اظہارِ ذات کا عاشق بنا دیا) تو آج سے پہلے ایسا کب ہوا تھا کہ کوئی ادیب کتاب لکھے، اپنی تخلیق پیش کرے، اور اسے پڑھنے والوں کا فوری ردِعمل مل جائے ۔

حرفِ آخر

کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ اس ٹیکنالوجی سے زبان میں اغلاط کی انتہا ہوگئی۔ دست بستہ عرض ہے یہ اغلاط تو زندگی کی نشانی ہیں، اگر رسم الخط مرجاتا، تو سوچیں پھر کیا ہوتا؟ اور اس فارم پر ایسے سنجیدہ افراد اور اساتذہ موجود ہیں جو غلطی کی نشاندہی، ہجے کی درستی کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں اور وہ اردو کی یہ خدمت بلامعاوضہ کر رہے ہیں۔

تو صاحبو، ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اردو رسم الخط اسمارٹ فونز اور سوشل میڈیا کے وسیلے یونی کوڈ کی شکل میں پھل پھول رہا ہے۔ یہی یونی کوڈ فارمیٹ بعد ازاں اِن پیچ میں بھی ڈھل جاتا ہے۔ اسی کے ذریعے گوگل سرچ بھی اپنے تمام در وا کر رہی ہے۔ یوٹیوب اور فیس بک پر بھی اردو میں لکھ کر سرچ کرنا اب ممکن ہے۔

اب تو یوں لگتا ہے کہ اردو اچانک جی اٹھی ہے۔ ٹیکنالوجی نے اس میں نئی روح پھونک دی۔ بس، اگر اردو کی معیشت مستحکم ہوجائے (یعنی اس میں روزگار کے ذرائع پیدا ہوجائیں) تو یہ بحرانی کیفیت نکل آئے گی۔

Read Comments