Dawn News Television

شائع 20 اگست 2020 03:19pm

بڑھتی عمر کے بچوں میں ذہنی مسائل کے اسباب

دور جدید میں جہاں ٹیکنالوجی کا انسانی زندگی کو آسان بنانے میں اہم کردار ہے، وہیں ٹیکنالوجی ذہنی مسائل کا بھی ایک سبب ہے۔

متعدد ریسرچز سے ثابت ہوچکا ہے کہ کم عمر یا بڑھتی عمر کے بچوں کی جانب سے حد سے زیادہ ٹیکنالوجی کے استعمال سے ان میں چڑ چڑاپن اور ذہنی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

تاہم بڑھتی عمر کے بچوں میں ذہنی مسائل کا ایک اور عام سبب بھی ہے، جسے والدین نظر انداز کرتے ہیں۔

برطانیہ میں ہونے والی ایک تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ بڑھتی عمر کے بچوں میں ذہنی مسائل، ڈپریشن، چڑچڑاہٹ اور انزائٹی جیسے مسائل کے پیدا ہونے کا اہم سبب بھرپور اور آرام نیند نہ کرنا بھی ہے۔

جدید دور میں عام طور پر بچے کمپیوٹر یا موبائل پر بہت زیادہ دیر تک وقت گزارتے ہیں یا کبھی کبھار وہ تعلیم کے سلسلے میں تاخیر سے سوتے اور جلدی سے اٹھتےہیں۔

بظاہر والدین اور بچے تعلیم کے غرض سے کم نیند کو مستقبل کے لیے اچھا سمجھتے ہیں، تاہم تحقیق سے ثابت ہوا کہ کسی بھی غرض سے مکمل اور بھرپور نیند نہ کرنے سے بڑھتی عمر کے بچوں میں ذہنی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: نئی نسل تیزی سے ڈپریشن کا شکار کیوں ہورہی ہے؟

برطانوی ماہرین نفسیات اور ماہرین اطفال نے بڑھتی عمر کے بچوں میں ڈپریشن، انزائٹی، چڑچڑے پن اور غصے جیسی شکایات کے اسباب جاننے کے لیے بڑے پیمانے پر بچوں کی معمولات کا جائزہ لیا۔

ماہرین کی جانب سے لیے گئے جائزے سے پتہ چلا کہ بڑھتی عمر کے وہ بچے جو کسی بھی وجہ سے مکمل اور بھرپور نیند نہیں کرتے، ان میں نو عمری میں ہی ذہنی مسائل پیدا ہونا شروع ہوتے ہیں۔

ماہرین نے تقریبا 5 ہزار نو عمر بچوں میں نیند کرنے کی عادت کا جائزہ لیا، جن سے پتہ چلا کہ جو بچے بہت زیادہ دیر تک نیند کرتے ہیں مگر ان کی نیند پرسکون نہیں ہوتی وہ بھی ذہنی مسائل کا شکار بنتے ہیں۔

بڑھتی عمر کے بچے اگر کسی بھی شور یا دوسرے مسئلے کی وجہ سے پرسکون نیند نہیں کرپاتے وہ نوجوانی سے قبل ہی ڈپریشن اور انزائٹی جیسے مسائل کا شکار بن جاتے ہیں۔

اسی طرح بھرپور اور پرسکون مگر کم نیند کرتے ہیں، وہ بچے بھی ٹین ایج میں چڑچڑے پن، تناؤ اور ذہنی تشنگی کا شکار بنتے ہیں۔

تحقیق سے پتہ چلا کہ جو بچے یومیہ 7 گھنٹے تک پرسکون نیند نہیں کرتے وہ ذہنی مسائل کا شکار بن جاتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق 14 سے 17 برس کی عمر کے بچوں کو 8 سے 9 گھنٹے تک پرسکون اور بھرپور نیند کرنی چاہیے۔

Read Comments