Dawn News Television

اپ ڈیٹ 11 اکتوبر 2020 03:01pm

اوپن مارکیٹ سے خریدی گئی غیرملکی کرنسی کے بینک اکاؤنٹس میں جمع کرانے پر پابندی

کراچی: حکومت نے لوگوں کو اوپن مارکیٹ سے خریدی گئی غیرملکی کرنسی کو بینک اکاؤنٹس میں جمع کرانے سے روک دیا۔

تاہم ڈان اخبار کی اس رپورٹ کی اشاعت تک یہ واضح نہیں تھا کہ حکومت کی جانب سے جاری کردہ نئے قوانین نے اسٹیٹ بینک کی فارن ایکسچینج مینوول (ایف ای ایم) میں پہلے سے موجود مواد میں نمایاں تبدیلی ہوئی ہے۔

اسٹیٹ بینک کی جاری کردہ ایف ای ایم کے چیپٹر 6، جس کے تحت ملک بھر میں تمام نجی غیرملکی کرنسی اکاؤنٹس کھولے جاتے ہیں، اس میں تمام ایف ای-25 فارن کرنسی ڈیپوزٹس کے لیے شرائط بیان کی گئی ہیں۔

اس میں واضح طور پر کہا گیا کہ ایک مرتبہ یہ اکاؤنٹس کھلنے کے بعد اسے ادھار لی گئی غیرملکی کرنسی، برآمدات کے لیے ادائیگی یا پاکستان میں یا یہاں سے دی گئی خدمات، سیکیورٹی کی رقم جو غیر ملکیوں کو جاری یا فروخت کی گئی ہو، پاکستانی کمپنی کی بیرون ملک آپریشن سے حاصل آمدنی اور ’پاکستان میں کسی بھی مقصد کے لیے کسی مجاز ڈیلر سے خریدی گئی فارن ایکسچینج (غیرملکی زرمبادلہ)‘ سے بھرا نہیں جاسکتا۔

تاہم حکومت نے جمعہ کو ان قوانین کو دوہراتے ہوئے پروٹیکشن آف اکنامک ریفارمز ایکٹ 1992 کے تحت ایک ایس آر او کے ذریعے نئے قوانین جاری کیے۔

مزید پڑھیں: بینکوں کے ذریعے غیر ملکی زرمبادلہ میں اضافہ

نئے قوانین میں کہا گیا کہ ایک فرد کے غیر ملکی کرنسی اکاؤنٹس کو پاکستان سے برآمدی اشیا کی ادائیگی، پاکستان میں یا یہاں سے فراہم کی گئی خدمات کی ادائیگی، سیکیورٹی کی رقم جو غیرمقیم افراد کو جاری یا فروخت کی گئی اور بیرون ملک سے قرضوں جیسے ذرائع کے ذریعے موصول ترسیلات زر سے کریڈٹ نہیں کیا جائے گا۔

حکومتی نوٹی فکیشن میں کہا گیا کہ غیرملکی کرنسی اکاؤنٹ میں کسی مجاز ڈیلر، ایکسچینج کمپنی یا منی چینجر سے خریدی گئی غیرملکی کرنسی جمع نہیں کی جائے گی سوائے اس کے کہ اسٹیٹ بینک کسی قانون کے تحت عام یا خصوصی اجازت کے ذریعے اجازت دی گئی ہو‘۔

تاہم قوانین بیرون ملک سے خریدی گئی اور ملک میں داخل ہوتے وقت پاکستان کسٹمز کے سامنے اسے مکمل طور پر ظاہر کی گئی غیرملکی کرنسی کو اکاؤنٹ میں جمع کرانے کی اجازت دیتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ دوسرے بینک اکاؤنٹ سے منتقل کی گئی غیرملکی کرنسی کی بھی اجازت ہے۔

اس حوالے کرنسی ماہرین کا کہنا تھا کہ ان نئے اقدامات سے بینکوں میں ڈالر کا بہاؤ کم ہوسکتا ہے۔

فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدر ملک بوستان کا کہنا تھا کہ تمام نئے قوانین خاص طور پر افغانستان اور ایران کو برآمدات کے معاملے میں منی لانڈرنگ کو روکیں گے کیونکہ زیادہ تر تاجر ان ممالک کے ساتھ بینکنگ چینلز کے ذریعے کام نہیں کرتے۔

ان کے مطابق نئے قوانین نے ہر کسی کے لیے یہ ضروری کردیا کہ وہ غیرملکی کرنسی اکاؤنٹ میں ڈالرز جمع کرانے کے لیے پہلے اسٹیٹ بینک سے اجازت لے اور یہ کہ نئے قوانین خاص طور پر ایران اور افغان تجارت کے تناظر میں تیار کیے گئے۔

ڈان سے گفتگو میں ’انہوں نے بتایا کہ افغانستان اور ایران کے ساتھ بیشتر تجارت کی پہلی لین دین اوپن مارکیٹ سے خریدے گئے ڈالرز کے استعمال سے کی جاتی ہے‘۔

ان ممالک کے ساتھ تجارت کے قواعد کے مطابق برآمد کنندہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے صارف سے پیشگی ادائیگی لے، جو عام طور پر یہاں برآمد کنندگان اوپن مارکیٹ سے ڈالر خرید کر ہی کرلیتے ہیں اور لین دین شروع ہونے سے قبل ہی اسے اپنے فارن کرنسی اکاؤنٹ میں جمع کراتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ پیچیدہ نظام ہے‘ لیکن نئے قوانین اب اسے بنیادی طور پر ناممکن بنا دیں گے کیونکہ ان تاجروں کو اپنے اکاؤنٹس میں یہ ڈالرز جمع کرانے سے قبل اسٹیٹ بینک کی اجازت درکار ہوگی‘۔

تاہم تولا ایسوسی ایٹس، ٹیکس اور کارپوریٹ ایڈوائزر نئے حکومتی قوانین میں کچھ مسائل کی نشاندہی کرتے ہیں۔

تولا ایسوسی ایٹس کی رپورٹ میں کہا گیا کہ ایسے کریڈٹ پر پابندی ان افراد کے لیے عملی طور پر سخت مشکلات کا باعث بنیں گے جو ان غیر ملکی کرنسی اکاؤنٹس کو بیرون ملک تعلیمی اخراجات کی ترسیلات، فارنس سیکیورٹیز میں سرمایہ کاری، فارن کرنسی سیونگ اکاؤنٹس میں سرمایہ کاری، وغیرہ کے مقصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

ویڈیو دیکھیں: 'وائٹ کالر کرائم کے ذریعے ہر سال ایک کھرب ڈالرز کی منتقلی کی جاتی ہے'

ان کے بقول ان پابندیوں کا مقصد ہے کہ اس طرح کے لوگ صرف دیگر غیرملکی کرنسی اکاؤنٹس (جو بالآخر خالی ہوجائے گا) یا فارن کرنسی ذرائع کے ذریعے اپنے اکاؤنٹس میں رقم ڈال سکتے ہیں۔

اس کے علاوہ ملک میں ای-کامرس انڈسٹری تیزی سے بڑھ رہی ہے اور بہت سارے نوجوان پروفیشنلرز پاکستان سے غیرملکیوں کو آئی اور آئی سے متعلق خدمات فراہم کرنے میں مصروف ہیں جبکہ ملک میں (پے پال جیسے) عالمی مالیاتی پلیٹ فامز نہ ہونے کی وجہ سے وہ منی ایکسچینج کے ذریعے اپنی غیرملکی آمدنی کو وصول کرتے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ پروفیشنلز ڈیجیٹل ٹولز کے لیے بھی غیرملکی کرنسی میں ادائیگی کرتے ہیں جو وہ اپنے غیرملکی کرنسی اکاؤنٹس کے ذریعے کرتے ہیں۔

مزید یہ کہ اس طرح کی پابندی ملک کے فری لانسرز کے لیے زبردست عالمی مواقع اور طلب کے باوجود جدوجہد کرنے والی ای کامرس مارکیٹ کے لیے صرف رکاوٹیں کھڑی کرے گی۔


یہ خبر 11 اکتوبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

Read Comments