Dawn News Television

اپ ڈیٹ 01 فروری 2021 03:14pm

کسانوں کے احتجاج کی رپورٹنگ پر بھارتی صحافیوں کے خلاف بغاوت کے مقدمات

متعدد بھارتی صحافیوں کو کسانوں کے گزشتہ ہفتے کیے گئے احتجاج کے بارے میں رپورٹ اور آن لائن پوسٹس کرنے پر بغاوت کے الزامات کا سامنا ہے جبکہ میڈیا تنظیموں کی جانب سے اس قانونی کارروائی پر تنقید کی جارہی ہے۔

برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق کم از کم 5 ریاستوں میں جن صحافیوں کے خلاف پولیس کیسز کا اندراج کیا گیا ہے، ان میں انڈیا ٹوڈے ٹی وی چینل کے معروف اینکر راج دیپ سردیسی اور کارواں نامی جریدے کے ایگزیکٹو ایڈیٹر ونود جوز بھی شامل ہیں۔

مذکورہ کیسز ان ریاستوں کے مقیم افراد نے دائر کیے جن میں 26 جنوری کو دہلی کے لال قلعے پر کسانوں کے احتجاج کے دوران ٹوئٹر پر غلط پوسٹس کر کے تشدد کو بھڑکانے کا الزام عائد کیا گیا ہے جس میں ایک یہ رپورٹ بھی شامل تھی کہ پولیس نے ایک شخص کو مار دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: صحافتی تنظیموں کا بھارت میں صحافیوں کے خلاف بغاوت کے مقدمات پر اظہار تشویش

یاد رہے کہ ہزاروں کسان 2 ماہ سے زائد عرصے سے بھارتی دارالحکومت کے مضافات میں دھرنا دے کر بیٹھے ہیں اور نئے زرعی قوانین کو واپس لینے کا مطالبہ کررہے ہیں جسے وہ سمجھتے ہیں کہ یہ کاشت کار کے بجائے نجی خریداروں کو فائدہ دے گا۔

وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کا کہنا تھا کہ زرعی شعبے میں اصلاحات سے کسانوں کے لیے مواقع پیدا ہوں گے۔

تاہم 26 جنوری بھارت کے یومِ جمہوریہ کے موقع پر احتجاج اس وقت پر تشدد ہوگیا تھا جب کسانوں نے تاریخی لال قلعے پر چڑھائی کردی تھی، اس دوران ایک شخص ہلاک جبکہ سیکڑوں مظاہرین زخمی ہوگئے تھے۔

اس وقت عینی شاہدین نے رائٹرز کو بتایا تھا کہ احتجاج میں شامل ایک شخص ٹریکٹر الٹنے سے اس کے نیچے دب کر ہلاک ہوا تھا لیکن ایسی بھی اطلاعات تھیں کہ مذکورہ شخص کو گولی ماری گئی تھی تاہم آنسو گیس فائر کرنے والی پولیس نے گولی چلانے کی تردید کی تھی۔

مزید پڑھیں: ہندو راشٹریہ کے نمائندے مودی بھارت کو یہ نقصان کیوں پہنچا رہے ہیں؟

دوسری جانب صحافیوں کے خلاف اترپردیش ریاست میں درج کروائی گئی ایک شکایت میں کہا گیا کہ 'ملزم نے آن لائن جھوٹی اور غلط معلومات پھیلا کر اپنے ذاتی اور سیاسی مفاد کے لیے مظاہرین کو مشتعل کرنے کی کوشش کی'۔

ونود جوز نے کہا کہ انہوں نے وہاں موجود عینی شاہدین اور مرنے والے شخص کے رشتہ داروں سے سنا تھا کہ اس کو گولی ماری گئی تھی۔

اپنے بیان میں انہوں نے مزید کہا کہ 'یہ آزادانہ رپورٹنگ پر حملہ ہے، حکومت چاہتی ہے کہ صرف اس کا مؤقف شائع کیا جائے'۔

دوسری جانب اینکر راج دیپ سردیسی جو ایک وکیل بھی ہیں انہوں نے اس حوالے سے کوئی بیان نہیں دیا۔

علاوہ ازیں ایڈیٹرز گلڈ انڈیا، پریس کلب انڈیا اور متعدد صحافتی گروہوں نے پولیس شکایت کی مذمت کی اور اسے میڈیا کو دبانے کی ایک دھمکی آمیز تدبیر قرار دیا۔

خیال رہے کہ رپورٹرز ود آؤٹ بارڈز کی سالانہ عالمی پریس فریڈم رینکنگ میں بھارت 2 درجے تنزلی کے بعد 142ویں نمبر پر آگیا تھا جو آزادی صحافت کی خلاف ورزیوں بشمول صحافیوں کے خلاف تشدد اور ہندو قوم پرست حکومت کے راستے پر چلنے کے لیے میڈیا پر بڑھتے ہوئے دباؤ کی نشاندہی ہے۔

Read Comments