Dawn News Television

اپ ڈیٹ 08 اکتوبر 2021 05:11pm

بھارت: کسانوں کو کچلنے کا کیس، وزیر کے بیٹے کے خلاف کارروائی نہ ہونے پر عدالت کا اظہارِ برہمی

بھارت کی سپریم کورٹ نے ملک کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کے علاقے لکھیم پور کھیری میں احتجاج کرنے والے کسانوں کو مبینہ طور پر گاڑیوں سے کچل کر ہلاک کرنے کے معاملے میں مرکزی وزیر کے بیٹے کے خلاف کارروائی نہ کیے جانے پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔

مذکورہ واقعہ گزشتہ ہفتے لکھیم پور کھیری میں اس وقت پیش آیا تھا جب کہ وہاں کے کسان مطالبات کے لیے مرکزی وزیر داخلہ اجے مشرا سمیت دیگر اعلیٰ عہدیداروں کی علاقے میں آمد کے موقع پر مظاہرہ کر رہے تھے۔

لکھیم پور کھیری مرکزی وزیر اجے مشرا کا آبائی علاقہ ہے، جہاں پر 4 اکتوبر کو اتر پردیش حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں سمیت مرکزی حکومت کے عہدیدار آئے تھے اور ان کی آمد کے موقع پر کسانوں نے بعض اصلاحات کے خلاف احتجاج کیا تھا۔

احتجاج کے دوران مبینہ طور پر مرکزی یونین وزیر داخلہ اجے مشرا کے بیٹے آشیش مشرا نے کسانوں پر گاڑیوں چڑھادی تھیں، جس کے نتیجے میں 4 افراد موقع پر ہی ہلاک ہوگئے تھے جب کہ بعد ازاں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 8 تک پہنچ گئی تھی۔

واقعے کے بعد سپریم کورٹ نے 6 اکتوبر کو واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے 7 اکتوبر کو کیس کی پہلی سماعت کی تھی۔

’انڈیا ٹوڈے‘ کے مطابق سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ایم می رمانا نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے اترپردیش حکومت سے واقعے کی رپورٹ طلب کی تھی، بعد ازاں ان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ بنایا گیا، جس نے 7 اور 8 اکتوبر کو کیس کی سماعت کی۔

’ٹائمز آف انڈیا‘ کے مطابق 8 اکتوبر کو ہونے والی سماعت میں سپریم کورٹ نے اتر پردیش حکومت کی جانب سے اندوہناک واقعے کے بعد اٹھائے گئے اقدامات پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریاستی حکومت کے اقدامات کو نامکمل قرار دیا۔

عدالت نے اس بات پر بھی برہمی کا اظہار کیا کہ کسانوں کو کار سے کچل کر ہلاک کرنے کے واقعے کا کیس تعزیرات ہند کی دفعہ 302 کے تحت دائر کیے جانے کے بعد مرکزی وزیر داخلہ کے بیٹے آشیش مشرا کو گرفتار نہیں کیا گیا۔

عدالت نے پولیس اور ریاستی حکومت کے اقدامات نامکمل قرار دیتے ہوئے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے انتظامیہ کو ہدایات کیں کہ مقدمے میں نامزد ملزمان کو گرفتار کیا جائے، جس کے بعد عدالت نے کیس کی سماعت 20 اکتوبر تک ملتوی کردی۔

دوسری جانب مملکتی وزیر اجے مشرا کے بیٹے آشیش مشرا پولیس کا سمن ملنے کے باوجود 8 اکتوبر کو تھانے پیش نہیں ہوئے اور پولیس نے انہیں 9 اکتوبر کو دوبارہ پیش ہونے کے لیے سمن جاری کردیا۔

خبر رساں ادارے ’ایشین نیوز انٹرنیشنل‘ (اے این آئی) کے مطابق آشیش مشرا کو 8 اکتوبر کی دوپہر تک لکھیم پور کھیری تھانے پیش ہونا تھا مگر وہ پیش نہ ہوسکے، جس کے بعد پولیس نے دوبارہ وزیر داخلہ کی رہائش گاہ کے باہر نوٹس چسپاں کردیا۔

بیٹے کو پیشی کے لیے سمن جاری کیے جانے کی وزیر داخلہ اجے مشرا نے تصدیق کی لیکن دعویٰ کیا کہ 8 اکتوبر کو ان کے بیٹے کی طبیعت خراب تھی، جس کی وجہ سے وہ پولیس کے سامنے پیش نہ ہوسکے اور 9 اکتوبر تک وہ تھانے میں پیش ہوجائیں گے۔

دوسری جانب بھارتی میڈیا میں افواہیں ہیں کہ وزیر داخلہ کے بیٹے پڑوسی ملک نیپال فرار ہوگئے ہیں، کیوں کہ لکھیم پور کھیری سے نیپال کچھ ہی فاصلے پر ہے لیکن اجے مشرا نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کا بیٹا ایک دن کے بعد پولیس کے سامنے پیش ہوجائے گا۔

کسانوں کو کار سے کچل کر ہلاک کرنے کا واقعہ

’انڈین ایکسپریس‘ کے مطابق کسانوں کو مبینہ طور پر کار سے کچل کر ہلاک کرنے کا واقعہ 4 اکتوبر کو لکھیم پور کھیری میں اس وقت پیش آیا جب وہاں اتر پردیش کے نائب وزیر اعلیٰ سمیت دیگر ریاستی عہدیدار اور مرکزی حکومت کے عہدیدار آنے والے تھے اور کسانوں نے ان کی موجودگی میں اپنے مطالبات رکھنے کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔

رپورٹ کے مطابق کسانوں کی جانب سے احتجاج کرنے پر وزیر داخلہ اجے مشرا اور ان کے بیٹے آشیش مشرا برہم تھے اور انہوں نے کسانوں کو احتجاج ختم کرنے کا بھی کہا تھا مگر کسانوں نے مزید کاشت کار بلا کر احتجاج کو بڑھاوا دیا۔

بعد ازاں کسانوں کی جانب سے احتجاج والی جگہ سے مرکزی وزیر داخلہ اجے مشرا کی تین گاڑیوں کا قافلہ گزارا، جنہوں نے مبینہ طور پر کسانوں کو کچلا۔

رپورٹ کے مطابق مذکورہ تین میں سے ایک گاڑی میں اجے مشرا کے بیٹے آشیش مشرا تھے، جنہوں نے اپنی کار کسانوں پر چڑھائی اور انہوں نے کم از کم ایک کسان کو گولی مار کر ہلاک بھی کیا۔

گاڑیوں سے کسانوں کو کچلنے، بھگدڑ مچانے اور فائرنگ کے بعد ہونے والے واقعات میں مجموعی طور پر 4 کسانوں اور ایک صحافی سمیت 8 افراد ہلاک ہوئے اور معاملہ سنگین ہوگیا۔

’دی پرنٹ‘ کے مطابق کسانوں کے احتجاج کی کوریج کرنے والے 35 سالہ صحافی رمن کشیپ کو بھی مبینہ طور پر مرکزی وزیر داخلہ کے بیٹے کی گاڑی نے کچلا تھا۔

مقتول صحافی کے اہل خانہ کے مطابق وہ واقعے کی کوریج کے لیے گئے تھے اور انہوں نے کئی ویڈویوز بنائیں، جس کی وجہ سے انہیں نشانہ بنایا گیا۔

مقتول صحافی شادی شدہ اور چار بچوں کے باپ تھے، جب کہ انہیں مقامی ٹی وی چینل سے اس وقت 500 روپے ملتے تھے جب ان کی رپورٹ نشر ہوتی تھی۔

لکھیم پوری کھیری میں مذکورہ واقعے میں مجموعی طور پر 8 افراد ہلاک ہوئے، جس کے بعد پولیس نے سرکاری مدعیت میں مقدمہ بھی درج کرکے آشیش مشرا سمیت دیگر لوگوں کو نامزد بھی کیا ہے لیکن تاحال کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا جب کہ واقعے کا سپریم کورٹ نے بھی از خود نوٹس لے رکھا ہے اور کیس زیر سماعت ہے۔

دوسری جانب سوشل میڈیا پر واقعے سے متعلق کئی ویڈیوز سامنے آ رہی ہیں، جن میں آشیش مشرا کو دیگر ساتھیوں سمیت کسانوں کو گاڑیوں سے کچلتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے لیکن پولیس نے تاحال کسی بھی ویڈیو کو اصلی ویڈیو قرار نہیں دیا۔

Read Comments