Dawn News Television

شائع 29 اکتوبر 2021 11:39pm

کورونا وائرس سے جسم کے ایک اور حصے کے متاثر ہونے کا انکشاف

کووڈ 19 کے متعدد مریضوں کی جانب سے کانوں سے متعلق علامات بشمول سننے کی حس متاثر ہونے، سر چکرانے، توازن بگڑنے اور 'گھنٹیاں بجنے' کو رپورٹ کیا گیا ہے۔

اب امریکا میں ہونے والی ایک نئی تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کورونا وائرس کان کے اندرونی حصے کے خلیات بشمول بالوں کے خلیات کو متاثر کرتا ہے۔

ایم آئی ٹی اور میساچوسٹس آئی اینڈ ایئر کی اس تحقیق میں اس حوالے سے شواہد فراہم کیے گئے۔

محققین نے کووڈ 19 سے متاثر 10 افراد کے کانوں کے اندرونی ٹشوز میں انفیکشن کے رجحان کو دریافت کیا۔

محققین نے کانوں کے اندرونی حصے کے لیے نوول سیلولر ماڈلز کو تشکیل دیا تھا کیونکہ تحقیق کے لیے کان کے ٹشوز کا حصل لگ بھگ ناممکن ہوتا ہے۔

محققین نے بتایا کہ ماڈلز کا حصول پہلا قدم ہے اور ہمارے کام سے نہ صرف کورونا وائرس بلکہ سننے کی حس کو متاثر کرنے والے دیگر وائرسز کے اثرات کو جاننے کا موقع مل سکے گا۔

کووڈ کی وبا سے قبل ان ماہرین کی جانب سے انسانی کانوں کے اندرونی حصوں کی بیماریوں کی جانچ پڑتال کے لیے سیلولر ماڈلز تیار کرنے پر کام کای جارہا تھا۔

مختلف وائرسز جیسے ہیپاٹائٹس اور دیگر بہرے پن کا باعث بن سکتے ہیں مگر ایسا کیوں ہوتا ہے اس بارے میں ابھی تک زیادہ تفصیلات موجود نہیں۔

کورونا کی وبا کے بعد میساچوسٹس آئی اینڈ ایئر میں ایسے کووڈ مریضوں کی تعداد بڑھنے لگے جو سننے کی حس سے محرومی، گھنٹیاں بجنے اور سر چکرانے جیسے مسائل کا سامنا کررہے تھے۔

محققین نے کورونا وائرس کے اثرات کو جاننے کے لیے سیلولر ماڈلز تیار کرنے کا فیصلہ کیا اور انسانی جلد کے خلیات کے ذریعے ان کو تشکیل دینے میں کامیابی حاصل کی۔

ان ماڈلز کی مدد سے وہ نمونے حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اور دریافت کیا کہ کان کے اندرونی حصے میں مخصوص خلیات کورونا وائرس سے متثر ہوتے ہیں اور اس کے لیے وہ وائرس ایس 2 ریسیپٹر نامی پروٹین کا سہارا لیتا ہے۔

انہوں نے دریافت کیا کہ یہ وائرس کان کے اندرونی حصے بالخصوص بالوں کے خلیات اور کسی حد تک Schwann خلیات کو متاثر کرتا ہے، مگر دیگر خلیات کو اس سے خطرہ نہیں ہوتا۔

محققین کا کہنا تھا کہ اگرچہ کووڈ 19 سے کانوں کے خلیات متاثر ہونے پر مختلف مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے مگر کووڈ کے کتنے مریضوں کو کانوں سے متعلق علامات کا سامنا ہوتا ہے، وہ ابھی معلوم نہیں۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے کمیونیکشنز میڈیسین میں شائع ہوئے۔

Read Comments