Dawn News Television

شائع 26 نومبر 2021 09:34pm

سوشل میڈیا کے استعمال اور ڈپریشن کے خطرے میں تعلق دریافت

اگر آپ سوشل میڈیا پر بہت زیادہ وقت گزارتے ہیں تو اس طرح ڈپریشن کو اپنی جانب بڑھنے کی دعوت دے رہے ہوتے ہیں۔

یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

میساچوسٹس جنرل ہاسپٹل کے ایکسپیرمنٹل ڈرگز اینڈ ڈائیگنوسٹک سینٹر کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ سوشل میڈیا اور ذہنی صحت کے درمیان تعلق پر کافی بحث ہورہی ہے۔

اس تحقیق میں 5400 بالغ افراد کو شامل کیا گیا تھا اور ایک سال تک سوشل میڈیا کے استعمال اور ڈپریشن کی علامات کا جائزہ لیا گیا۔

تحقیق کے آغاز میں کسی بھی فرد میں معمولی ڈپریشن کو بھی رپورٹ نہیں کیا تھا۔

مگر 12 ماہ کے دوران متعدد سرویز میں کچھ افراد میں ڈپریشن کی شدت بدترین ہوتی گئی اور یہ خطرہ 3 مقبول سوشل میڈیا نیٹ ورکس اسنیپ چیٹ، فیس بک اور ٹک ٹاک کے استعمال کے ساتھ بڑھتا چلا گیا۔

محققین نے کہا کہ سوشل میڈیا واقعی ڈپریشن کا باعث بنتا ہے، یہ ابھی واضح نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایک ممکنہ وضاحت یہ ہے کہ ان افراد میں ڈپریشن کا خطرہ پہلے سے تھا چاہے بظاہر وہ ٹھیک ٹھاک تھے، وہ سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال کرسکتے ہیں، ایک وضاحت یہ ہے کہ سوشل میڈیا ہی اس خطرے کو بڑھانے کا باعث ہے۔

مگر ان کا کہنا تھا کہ اس تحقیق کا مقصد دونوں میں امتیاز کرنا نہیں تھا۔

زیادہ تفصیلی جانچ پڑتال کے لیے تحقیقی ٹیم نے 18 سال اور اس سے زائد عمر (اوسط عمر لگ بھگ 56 سال) کے سوشل میڈیا صارفین پر توجہ مرکوز کی، جن میں دوتہائی خواتین تھیں۔

ان سب سے ابتدائی سروے میں ان سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے بارے میں تفصیلات حاصل کی گئیں جو وہ استعمال کرتے تھے۔

ان سے خبروں کے حصول کی عادات اور اداسی یا ڈپریس ہونے پر سوشل سپورٹ تک رسائی کے بارے میں بھی پوچھا گیا۔

پہلے سروے میں کسی میں بھی ڈپریشن کی کوئی علامت ظاہر نہیں ہوئی تھی مگر فالو اپ سروے میں 9 فیصد میں ڈپریشن کے خطرے میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا۔

یہ خطرہ ٹک ٹاک یا اسنیپ چیٹ کے 35 سال یا اس سے زائد عمر کے صارفین میں زیادہ دیکھا گیا جبکہ فیس بک میں معاملہ الٹا ہوگیا، وہ زیادہ عمر کی بجائے 35 سال سے کم عمر صارفین میں ڈپریشن کے خطرے کو دریافت کیا گیا۔

محققین نے کہا کہ واضح وجہ اور اثر تو ابھی واضح نہیں مگر نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ سوشل میڈیا اور ذہنی صحت کے درمیان تعلق کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جاما نیٹ ورک اوپن میں شائع ہوئے۔

Read Comments