Dawn News Television

اپ ڈیٹ 11 جنوری 2022 04:05pm

طالبان وزیر خارجہ کی ایران میں احمد شاہ مسعود کے بیٹے سے ملاقات

طالبان کے وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ ہفتے کے آخر میں ان کی افغانستان کے لیجنڈری مزاحمتی رہنما احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود سے بات چیت ہوئی جس میں انہوں نے احمد مسعود کو ان کی وطن واپسی کی صورت میں مکمل تحفظ کی کی یقین دہانی کرائی ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق احمد مسعود کی پنجشیر ویلی کی فورسز نے افغان حکومتی فورسز کے ہار ماننے کے کئی ہفتوں بعد تک طالبان کے افغانستان پر قبضے کے خلاف مزاحمت کی تھی۔

ریاستی میڈیا کی جانب سے ٹوئٹر پر جاری وڈیو پیغام میں وزیر خارجہ امیر خان متقی نے کہا کہ انہوں نے اسمٰعیل خان سے بھی ملاقات کی جو ہرات صوبے کے سردار ہیں اور جنہوں نے طالبان کے سامنے سرینڈر کرنے کے بعد ملک چھوڑ دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: طالبان وزیر خارجہ امیر متقی کا ایران کا پہلا دورہ

طالبان نے امیر خان متقی کے ایرانی حکام کے ساتھ مذاکرات کے لیے تہران روانہ ہونے کے بارے میں بتایا تھا لیکن جلاوطن رہنماؤں سے ملاقات کے منصوبے سے متعلق کچھ نہیں بتایا گیا تھا۔

وڈیو پیغام میں امیر متقی نے کہا کہ ’ہم نے کمانڈر اسمٰعیل خان، احمد مسعود اور ایران میں موجود دیگر افغان رہنماؤں سے ملاقات کی اور ان کو یقین دلایا کہ کوئی بھی افغانستان آسکتا ہے اور بغیر کسی خدشے کے وہاں رہ سکتا ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: ابھی طالبان کی افغان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا، ایران

انہوں نے کہا کہ ’افغانستان ہم سب کا گھر ہے اور ہم کسی کے لیے عدم تحفظ اور مسائل پیدا نہیں کرتے، کوئی بھی آزادی کے ساتھ آکر یہاں رہ سکتا ہے‘۔

پنجشیر ویلی 1980 میں سوویت یونین کے خلاف اور 1990 کے اواخر میں طالبان کی پہلی حکومت کے خلاف مزاحمت کے لیے مشہور ہے۔

اس کے سب سے مشہور رہنما احمد شاہ مسعود، جو کہ پنجشیر کے شیر کے نام سے مشہور ہیں، کو 2001 میں نائن الیون سے دو روز قبل القاعدہ نے قتل کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: طالبان کی درخواست پر افغانستان کیلئے ایرانی ایندھن کی برآمد بحال

ان کے بیٹے نے تب سے کمان سنبھالی ہے اور ان کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ وہ دیگر جلاوطن افغان رہنماؤں کے ساتھ مل کر مزاحمت کے لیے تنظیم سازی کر رہے ہیں۔

احمد مسعود کی زیر قیادت قومی مزاحمتی فرنٹ نے متعدد بار طالبان حکومت کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے لیکن کوئی حملہ نہیں کیا ہے۔


یہ خبر 11 جنوری 2022 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

Read Comments