کوئٹہ: ایف سی نے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں منگل کے روز ایک بڑے دہشت گردی کے منصوبے کو ناکام بناتے ہوئے پاکستان کی تاریخ میں ایک وقت میں سب سے زیادہ ملنے والا دھماکہ خیز مواد بر آمد کرلیا۔
ایف سی کمانڈنٹ کرنل مقبول نے نے صحافیوں کو بتایا کہ کوئٹہ کے علاقے نیو اڈا میں دھماکہ خیز مواد میں استعمال ہونے والے پوٹاشیم کلورائیڈ اور دیگر دھماکہ کیمیکلز برآمد کیے گئے ہیں جبکہ 100 ٹن سے زائد دھماکہ خیز مواد قبضے میں لے لیا گیا ہے۔
کرنل مقبول کا کہنا ہے کہ برآمد کیا گیا دھماکہ خیز مواد 1لاکھ 4ہزار 4 سو کلو گرام ہے جبکہ چار بنڈل سرکٹ وائر اور ریموٹ کنڑول ڈیوائس بھی برآمد ہوئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ دس مبینہ عسکریت پسندوں کو آپریشن کے دوران حراست میں لیا گیا ہے جنہوں نے گودام میں خفیہ راستے بھی بنا رکھے تھے۔
انہوں صحافیوں کو بتایا کہ دھماکہ خیز مواد کو خود کش جیکٹیں بنانے کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا تھا۔ تمام مواد کو نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا ہے جبکہ بم ڈسپوزل اسکواڈ جائے وقوع کی چھان بین میں مصروف ہیں۔
انہوں بتایا کہ اسی طرح کا دھماکہ خیز مواد ہزارہ ٹاؤن میں ہونے والے دھماکوں میں بھی استعمال کیا گیا تھا جس کے دوران 100 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
دوسری جانب خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق فرنٹیئر کور کے ایک اہلکار نے بتایا کہ دو روز قبل دو مشتبہ شدت پسندوں کی گرفتاری کے بعد یہ کارروائی کی گئی، یہ دونوں افراد 15 ٹن پوٹاشیم کلوریٹ جو بم بنانے کا ایک خاص مادہ ہے، کو چپس کے ڈبوں میں چھپا کر ایک ٹرک میں لے جا رہے تھے۔
مذکورہ اہلکار نے مزید بتایا کہ ان دونوں افراد سے حاصل ہونے والی معلومات کی مدد سے سیکیورٹی اہلکاروں نے ایک گودام پر چھاپہ مارا جہاں پوٹاشیم کلوریٹ، سرکٹ وائر، سلفر، المونیم پاؤڈر، بندوقیں اور دیگر ہتھیار بڑی تعداد میں ذخیرہ کیا گیا تھا، جبکہ اسی جگہ ان کیمیکلز کو ملانے کی ایک مشین بھی موجود تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ گودام میں ان تمام کیمیکلز کی مدد سے 80 ڈرم بنائے گئے تھے جو کسی بھی وقت دھماکے سے اُڑائے جا سکتے تھے، جبکہ 10 افراد کو گرفتار بھی کر لیا گیا ہے۔
فرنٹیئر کور کے اہلکار نے رائٹرز سے بات کرتے ہوئے مزید کہا کہ "میں خدا کا بہت شکر ادا کرتا ہوں جس نے بلوچستان خصوصاً کوئٹہ کو ایک بڑے سانحے سے بچا لیا۔"
کوئٹہ بلوچستان کا دارالحکومت ہے جہاں صوبے خصوصاً کوئٹہ میں تحریک طالبان پاکستان، فرقہ ورانہ اور علیحدگی پسند گروپوں سمیت بڑی تعداد میں شدت پسند گروپ موجود ہیں جبکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں پر بھی شہریوں کے اغوا کا الزام لگایا جاتا رہا ہے، جس کی ہمیشہ ان اداروں نے تردید کی ہے۔
ابھی تک کسی نے بھی دھماکہ خیز مواد کی ذمے داری قبول نہیں کی لیکن اس سے قبل کالعدم لشکر جھنگوی صوبائی دارالحکومت میں ہونے والے دو بڑے دھماکوں کی ذمے داری قبول کر چکی ہے، جن میں سے ایک میں بارودی مواد واٹر ٹینکر جبکہ دوسرے میں ایک ایمبولینس میں چھپایا گیا تھا۔
ان دونوں دھماکوں میں مذہبی اقلیتی برادری ہزارہ کو نشانہ بنایا گیا تھا، جس کے بعد متاثرین نے لاشیں سڑکوں پر رکھ کر دھرنا دیا تھا جبکہ ملک بھر میں ان واقعات پر شدید احتجاج کیا گیا تھا جس کے بعد حکومت پاکستان نے فوری اقدامات کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔
گیارہ مئی کے انتخابات میں بھرپور کامیابی حاصل کر کے پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہونے والے محمد نواز شریف نے امن کے قیام کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کیا ہے، تاہم انہوں نے ابھی تک دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات یا فوجی آپریشن کے حوالے سے اپنا موقف واضح نہیں کیا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کو اس حوالے سے کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قبل پاکستان آرمی سے اجازت درکار ہوگی۔