انصاف کی قیمت پر مقدمات میں 'ٹائم فریم' نہیں دیا جا سکتا، لاہور ہائیکورٹ
لاہور ہائی کورٹ نے قرار دیا ہے کہ کسی ماتحت عدالت کو کسی خاص وقت کے اندر کسی مقدمے کا فیصلہ کرنے کا حکم لازمی حکم نہیں بلکہ عمومی طور پر ہدایت جیسا ہوتا ہے اور اس طرح کی ہدایات پر انصاف کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے جہاں تک ممکن ہو اتنا عمل کیا جانا چاہیے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق لاہور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ اعلیٰ عدالتوں کی جانب سے ایک خاص وقت میں کسی معاملے کا فیصلہ کرنے کے لیے دی گئی ہدایت پر سختی سے عمل کرنا عدالتی معاملے میں انصاف کرنے کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے کہ بے جا اور غیر ضروری جلد بازی میں کوئی ایسا فیصلہ کیا جائے جس کے نتیجے میں انصاف ہی نہ ہوسکے۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس عابد عزیز شیخ اور جسٹس مزمل اختر شبیر پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے یہ فیصلہ نیشنل بینک آف پاکستان (این بی پی) کی اپیل پر سنایا جس میں بینکنگ کورٹ کی جانب سے اپیل کنندہ بینک کی بندش کے نتیجے میں قرض وصولی کا مقدمہ خارج کرنے کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: توہین عدالت کیس: لاہور ہائی کورٹ نے اے سی، ڈی سی کی سزا معطل کردی
یہ مقدمہ اس بنیاد پر لاہور ہائی کورٹ میں چلا گیا تھا کہ بینکنگ کورٹ نے بینک کو ثبوت پیش کرنے کا مناسب موقع فراہم نہیں کیا اور اس تاثر کے تحت ثبوت پیش کرنے کے حق سے محروم کیا گیا کہ ہائی کورٹ نے کیس کو 10 روز کے اندر نمٹانے کی ہدایت کی تھی۔
جسٹس شبیر کے تحریر کردہ فیصلے میں کہا گیا کہ بینکنگ کورٹ لاہور ہائی کورٹ کی ہدایت کی پابند تھی لیکن اس ہدایت کا مطلب یہ نہیں تھا کہ فریقین کو اپنے کیس میں ثبوت پیش کرنے کا مناسب موقع فراہم کیے بغیر ہی معاملے کا فیصلہ کردیا جائے۔
فیصلے میں نوٹ کیا گیا ہے کہ قانون اس بات کی حمایت اورتقاضہ کرتا ہے کہ کسی معاملے کا فیصلہ ٹیکنیکل معاملات کے بجائے میرٹ پر کیا جائے۔
اس فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ بینکنگ کورٹ نے کیس کو نمٹانے سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے بے جا اورغیر ضروری جلد بازی کا مظاہرہ کیا اور کیس کا فیصلہ دیا جب کہ اپیل کنندہ (بینک) کو اپنے کیس کے حق میں ثبوت پیش کرنے کے لیے مناسب مواقع فراہم نہیں کیے گئے جو کہ انصاف پر مبنی فیصلے کے لیے ضروری تھا جس سے اس معاملے کے بارے میں عدالت کو ٹھیک فیصلے تک پہنچنے میں بھی مدد ملتی۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ نے جائیداد پر بھارتی دعوے کی تحقیقات کا حکم دے دیا
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ اپیل کنندہ کو ثبوت پیش کرنے کے حق سے محروم کرنے والا یہ حکم عدالت کے سامنے دستیاب ریکارڈ کے مطابق دائرہ اختیار کے مناسب استعمال پر مبنی نہیں لگتا اور یہ حکم برقرار رکھنے کے قابل نہیں ہے۔
عدالت نے کم نامے میں اپیل کنندہ کو ثبوت پیش کرنے کے حق سے محروم کرنے اور اس کے نتیجے میں قرض کی وصولی کے مقدمے کو برخاست کرنے کے حکم کو کالعدم قرار دیتے ہوئے بینک کو ثبوت پیش کرنے کا ایک اور موقع فراہم کرنے کی ہدایت کے ساتھ معاملہ بینکنگ کورٹ کو بھیج دیا۔
حکم نامے کے مطابق جواب دہندگان کو اپنے کیس کے حق میں ثبوت پیش کرنے کا موقع فراہم کیا جائے گا اور معاملے کا میرٹ پر از سر نو فیصلہ کیا جائے گا۔