Dawn News Television

شائع 10 جولائ 2022 07:23pm

لمپی اسکن بیماری کےخلاف ویکسین کی تیاری میں سندھ کی بڑی کامیابی

تیزی سے پھیلنے والی گانٹھ کی جلدی بیماریلمپی اسکن کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے سندھ کے محکمہ لائیو سٹاک کے محققین نے کچھ ہی عرصے میں ایک ایسی ویکسین تیار کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے جس کے بارے میں حکام کا خیال ہے کہ اس سے مویشیوں کے مالکان اور پالنے والوں کی مدد ہوسکے گی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق لمپی اسکن نامی اس بیماری نے پاکستان کی 10 کروڑ مویشیوں کی آبادی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

ایسے میں کہ جب ویکسین کا ٹرائل آخری مرحلے میں ہے، اس متعدی بیماری کے علاج کے لیے دوا کی مقامی پیداوار مارچ 2023 میں شروع ہونے کی امید ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ’لمپی اسکن کی وبا ویکسین کے غلط استعمال کے سبب پھیلی‘

سینئر حکام اور حالیہ پیشر فت سے واقف ذرائع نے بتایا کہ 'بڑی کامیابی' ترکی کے تعاون سے ممکن ہوئی ہے کیونکہ حکومت سندھ نے ترکی سے تقریباً 40 لاکھ ایل ایس ڈی خوراکیں درآمد کی ہیں جس کا مقصد نہ صرف جانوروں کو بچانا ہے بلکہ اس کی مقامی پیداوار بھی شروع کرنا ہے۔

اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کی مدد نے اس عمل کو مزید تیز کر دیا۔

ذرائع نے انکشاف بتایا کہ 'تحقیقاتی کام اور نمونے کی تیاری' نے ویکسین کی تیاری کے تمام روایتی، مقامی اور بین الاقوامی معیارات کو پورا کیا ہے۔

سندھ لائیو اسٹاک کے سیکریٹری تمیز الدین کھیرو نے ڈان کو بتایا کہ آزمائش حتمی مرحلے میں ہے اور اس سے تمام مطلوبہ نتائج حاصل ہوئے ہیں۔

مزید پڑھیں: سندھ، پنجاب کے بعد خیبر پختونخوا میں بھی لمپی اسکن وبا پھلنے لگی

انہوں نے مزید بتایا کہ رواں برس دسمبر تک یہ عمل ختم ہو جائے گا اور اس کے 3 ماہ بعد ہم مارچ 2023 میں دوا کی پیداوار شروع کر سکیں گے۔

انہوں نے کہا کہ جس دن [درآمد شدہ ایل ایس ڈی ویکسینز کی] پہلی کھیپ یہاں پہنچی، حکومت، وزیر اور متعلقہ ہر فرد کی جانب سے واضح ہدایت تھی کہ یہ کام ہمیں خود کرنا ہے، ہم نے اس چیلنج کے لیے مقررہ ڈیڈ لائن کو پورا کیا اور اب آپ دیکھیں گے کہ مارچ 2023 میں پیداوار شروع ہوجائے گی۔

انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت نے اس مقصد کے لیے کراچی کے علاقے کورنگی میں ایک عمارت تعمیر کی تھی، اسے ایک لیب میں تبدیل کیا جا رہا ہے اور حکومت مشینری سے لے کر انسانی وسائل اور پیداواری سہولت تک کی تمام ضروریات کو پورا کرے گی۔

خیال رہے کہ ویکٹر سے پیدا ہونے والی بیماری ملک میں 2021 کے آخر میں سامنے آنا شروع ہوئی اور اب تک اس نے سندھ بھر میں 52 ہزار جانوروں کو متاثر اور ان میں سے 571 کو ہلاک کیا۔

یہ بھی پڑھیں: لمپی اسکن کی وبا انسانوں میں منتقل نہیں ہوتی، تحقیق

جانوروں کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بیماری جو بنیادی طور پر مچھروں اور ٹک کے کاٹنے والے کیڑوں سے پھیلتی ہے پہلی بار زیمبیا میں مویشیوں میں 1929 میں دریافت ہوئی تھی۔

مارچ 2022 میں سندھ حکومت نے 50 کروڑ روپے کی لاگت کے ساتھ ترکی سے 20 لاکھ ویکسین خوراکوں کی پہلی کھیپ درآمد کرنے کا اعلان کیا تھا۔

سندھ انسٹی ٹیوٹ آف اینیمل ہیلتھ کو کریڈٹ دیتے ہوئے کہ جس نے'چیلنج کا مقابلہ کیا، تحقیقی عمل کو حیران کن رفتار سے آگے بڑھایا اور مطلوبہ نتیجہ حاصل کیا' حکام کا خیال ہے کہ مقامی پیداوار سے ویکسینیشن کی لاگت میں فی جانور 25 سے 250 روپے تک کمی آئے گی۔

Read Comments