پاکستان

متعلقہ حلقے سے پولنگ ایجنٹس مقرر کرنے کا نوٹیفکیشن معطل

پولنگ ایجنٹ کسی بھی حلقے سے تعینات کیا جا سکتا ہے، دوسرے حلقوں سے آنے والے کوئی خلائی مخلوق نہیں ہوتے، عدالت

لاہور ہائی کورٹ نے صرف متعلقہ حلقے سے پولنگ ایجنٹس مقرر کرنے کے حوالے سے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کا نوٹیفکیشن معطل کرتے ہوئے فیصلہ دیا کہ پولنگ ایجنٹ کسی بھی حلقے سے تعینات کیا جا سکتا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ای سی پی نے اعلان کیا تھا کہ آج کے ضمنی انتخابات کے پولنگ ایجنٹس متعلقہ حلقوں کے ووٹرز ہوں گے، کوئی امیدوار حلقے کے باہر سے کسی پولنگ ایجنٹ کو تعینات نہیں کرے گا۔

پی ٹی آئی پنجاب کی صدر ڈاکٹر یاسمین راشد نے ایک رٹ پٹیشن کے ذریعے اس نوٹیفکیشن کو چیلنج کیا تھا۔

مزید پڑھیں: ضمنی انتخابات:سیکیورٹی اہلکاروں کو گنتی کے عمل سے دور رہنے کی ہدایت

درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ الیکشن کمیشن نے پولنگ ایجنٹس کے حوالے سے اس شرط کا اعلان غیر قانونی طور پر کیا، ماضی میں پولنگ ایجنٹس پر ایسی کوئی پابندی نہیں تھی۔

جسٹس شاہد جمیل خان نے ریمارکس دیے کہ پولنگ ایجنٹس کی کچھ ذمہ داریاں ہوتی ہیں جو انہیں الیکشن کے روز ادا کرنی ہوتی ہیں، اسی حلقے سے تعینات کیے جانے والے پولنگ ایجنٹس کو وہاں کے ووٹرز کی شناخت کا فائدہ حاصل ہوگا۔

تاہم درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ قانون کے تحت متعلقہ حلقے سے پولنگ ایجنٹس کا تقرر ضروری نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: فافن نے پولنگ ایجنٹس کی رہنمائی کیلئے کتابچہ جاری کردیا

ای سی پی کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ پولنگ کے روز پُر تشدد واقعات سے بچنے کے لیے کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اگر حلقوں سے باہر کے ووٹرز کو پولنگ ایجنٹ کے طور پر انتخابی سرگرمیوں میں شامل ہونے کی اجازت دی جائے تو پُر تشدد واقعات کا امکان زیادہ ہوگا۔

تاہم جج نے اس رائے کو مسترد کردیا اور مشاہدہ کیا کہ دوسرے حلقوں کے ووٹرز 'خلائی مخلوق' نہیں ہوتے۔

جج نے مشاہدہ کیا کہ غیر قانونی نوٹیفکیشن کو صرف عارضی طور پر معطل کیا گیا ہے، الیکشن کمیشن 17 جولائی (آج) کے ضمنی انتخابات کے بعد پولنگ ایجنٹس کے تقرر کے لیے نئے قوانین بنانے کے لیے آزاد ہے۔

مزید پڑھیں: عام انتخابات: سیاسی جماعتوں، پولنگ ایجنٹس کیلئے ضابطہ اخلاق جاری

درخواست گزاروں کی قانونی ٹیم کے سینئر رکن ایڈووکیٹ احمد اویس نے مؤقف اختیار کیا کہ اگر انتظامیہ کو بھی قانون کے دائرے میں رہنے اور عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر عمل درآمد کرنے کی ہدایت کی جائے تو امن و امان برقرار رہے گا۔

جج نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے کہا کہ عدالت عظمٰیٰ اور اس عدالت کی جانب سے پولیس اور سول انتظامیہ کو دی گئی ہدایات پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔

جج نے حکم نامے میں کہا کہ درخواست گزار کی سیاسی جماعت کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی کے کسی بھی عمل کو اگر باضابطہ طور پر اس عدالت کے سامنے پیش کیا گیا تو اسے بھی توہین عدالت کے زمرے میں شمار کیا جائے گا۔

پنجاب کے ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی نے مسلم لیگ (ن) کو شکست دے دی

ریحام خان کا تیسری شادی کا عندیہ

ایف اے ٹی ایف کا دورہ ستمبر میں متوقع