Dawn News Television

اپ ڈیٹ 15 مئ 2015 06:38pm

وائے افسوس!

جمشید نسروانجی "گل بائی میٹرنٹی ہوم" کے افتتاح کے موقعے پر مسز اڈا ریو کے ساتھ -- پبلک ڈومین فوٹو -- بشکریہ لکھاری

is blog ko Hindi-Urdu mein sunne ke liye play ka button click karen [soundcloud url="http://api.soundcloud.com/tracks/107462065" params="" width=" 100%" height="166" iframe="true" /]

گذشتہ بلاگ میں ہم نے جمشید نسروانجی کے حوالے سے بتایا تھا کہ اُنھیں میٹرنٹی ہومز قائم کرنے میں خاصی دل چسپی تھی۔ حاتم علوی نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ وہ اپنی والدہ کے لیے بہت عقیدت رکھتے تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ وہ کراچی کے تمام علاقوں میں میٹرنٹی ہوم قائم کرنا چاہتے تھے۔جمشید نے اپنی والدہ کی یاد میں جہانگیر باغ کے قریب ایک میٹرنٹی ہوم تعمیر کروایا۔ حاتم علوی مزید لکھتے ہیں کہ وہ ہمیشہ ایسے مال دار لوگوں کی تلاش میں رہتے تھے جنھوں نے سال رواں میں زیادہ سے زیادہ دولت کمائی ہو۔ تاکہ اُنھیں میٹرنٹی ہومز کی تعمیر کے لیے رضامند کیا جا سکے۔ یہ کوئی آسان کام نہ تھا۔ لیکن جمشید نے اس کے لیے ایک ایسی حکمت عملی تیار کی تھی کہ کوئی مال دار شخص اُن سے بچ نہیں پاتا تھا۔ایک بار میں نے اُنھیں بتایا کہ موت کا فرشتہ ایک بوہری سیٹھ کی جان لینے کو تیار ہے۔ اُس کے مرنے کے بعد اُس کے رشتے دار اُس کی جائداد پر دعوے دائر کریں گے۔ جمشید نے کہا کہ وہ کوشش کریں گے۔ میں نے اُنھیں کہا کہ یہ فرشتے اور اُن کے درمیان دوڑ ہوگی۔ وہ کامیاب ہو گئے۔ اس کے نتیجے میں عیدگاہ میدان میں سیٹھ اسماعیل جی، امین جی، ناتھانی میٹرنٹی ہوم کا قیام عمل میں آیا۔ہم نے سوچا کہ ان دونوں ہومز کو دیکھا جائے۔ چوں کہ میری بیوی کا گھر بھی عید گاہ میدان میں ہے جس میں ہم رہتے ہیں۔ جی ہاں میری شریک حیات نرس ہیں اور انہیں ایک سرکاری میٹرنٹی ہوم میں گھر ملا ہوا ہے۔ خیر میں نے میٹرنٹی ہوم کی تلاش کا آغاز اپنے گھر سے کیا۔گھر میں داخل ہوتے ہی بیگم پوچھا کہ 'سیٹھ اسماعیل جی امین جی ناتھانی میٹرنٹی ہوم' کے بارے میں انھیں کچھ معلوم ہے؟ انھوں نے کہا کہ 20 برسوں کی ملازمت میں انھوں نے ایسے کسی میٹرنٹی ہوم کا نام نہیں سنا۔ہمارے صاحبزادے علی حسن نے جو اس وقت موجود تھے نے کہا کہ انھیں اس بارے میں معلوم ہے۔ یہ ہمارے لیے حیرت کی بات تھی۔ علی حسن کو ہمارے محّلے میں لوگ 'حسن مکانا' کے نام سے جانتے ہیں۔ مکانا بلوچی کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں"نہ کر!"۔علی حسن شروع سے ہی بہت شرارتی واقع ہوئے ہیں۔ کبھی اسپتال کی چھتوں پر چڑھ جاتے ہیں اور وہ کیا کام ہے جو وہ نہیں کرتے۔ تو جناب علی حسن جو چھٹی جماعت کے طالب علم ہیں، ان سے ہم نے پوچھا کہ ان کے پاس اس بات کا کیا ثبوت ہے۔ انھوں نے شرماتے ہوئے کہا میرے ساتھ چلیں۔ ہم ان کے ساتھ چل پڑے۔

بھولے بسرے "اسماعیل جی امین جی ناتھانی میٹرنٹی ہوم" کی تختی -- فوٹو بشکریہ لکھاریوہ ہمیں اسپتال کی چھت پر لے گئے۔ وہاں سے دوسری چھت پر لے گئے۔ اور پھر انھوں نے انگریزی میں لکھی گئی ایک تختی کی طرف اشارہ کیا جس پر صاف صاف اسماعیل جی امین جی ناتھانی میٹرنٹی ہوم لکھا ہوا تھا! علی حسن کے چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ تھی اور ہم شرم کے مارے مرے جا رہے تھے۔اگر آپ کبھی صدر ٹاون کی یونین کونسل نمبر 5 کے دفتر آئیں تو اس کے ساتھ ہی عیدگاہ میٹرنیٹی ہوم کی عمارت موجود ہے۔ یونین کونسل کے اریب قریب چاقو چھریاں تیز کرنے والوں کی دکانیں ہیں، میرا خیال ہے کہ جہاں تختی لگی ہے وہ غالباََ میٹرنٹی ہوم کا صدر دروازہ ہوگا۔ لیکن تجاوزات کی وجہ سے بند ہو گیا ہوگا۔

کل کا "اسماعیل جی امین جی ناتھانی میٹرنٹی ہوم"، آج کا "عید گاہ میٹرنٹی ہوم" -- فوٹو بشکریہ لکھارییہ میٹرنٹی ہوم اب عید گاہ میٹرنٹی ہوم کے نام سے جانا جاتا ہے۔ سیٹھ اسماعیل جی، امین جی، ناتھانی کو افسوس اب کوئی نہیں جانتا۔اب آئیے دوسری جانب، جمشید صاحب کی والدہ کا نام تو ہمیں معلوم تھا یعنی 'گل بائی' اور ان کے نام سے منسوب میٹرنٹی ہوم کا علاقہ بھی. حاتم علوی لکھتے ہیں کہ یہ میٹرنٹی ہوم جہانگیر باغ جسے اب جہانگیر پارک کہا جاتا ہے کے قریب واقع ہے۔خیر ہم نے میٹرنٹی ہوم کی تلاش کا آغاز جہانگیر پارک سے کیا. شاید کبھی پارک ہوتا ہو گا اب ایک اْجاڑ جنگل کا منظر پیش کرتا ہے۔ اندر ہیروئن کے عادی افراد بڑی تعداد میں سو رہے ہوتے ہیں یا ہیروئن پی رہے ہوتے ہیں.ہم مرکزی دروازے سے جیسے ہی اندر داخل ہوئے تو بائیں جانب ایک گول سا کمرہ نظر آیا جس میں چند لوگ بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے۔ ایک صاحب ان سب کے درمیان ایک چھوٹے سے کیبن میں بیٹھے تھے۔ ہم نے اُن سے اپنا تعارف کرایا۔ جواباََ اُنھوں نے بتایا کہ وہ بلدیہ کے مُلازم ہیں اور اس لائبریری کے نگران ہیں۔ہم نے اُن سے گُل بائی میٹرنٹی ہوم کے بارے میں دریافت کیا۔ اُنھوں نے اس بارے میں لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ پارک کے آخر میں یونین کاؤنسل کا دفتر ہے۔ شاید وہاں سے کوئی معلومات مل جائے۔ ہم یونین کاؤنسل کے دفتر پنہچے۔ وہاں پر موجود ایک کلرک نے بتایا کہ گُل بائی میٹرنٹی ہوم کے نام سے کوئی بھی عمارت اُن کی حدود میں موجود نہیں ہے۔میں مایوس ہو کر دفتر سے نکل آیا، پھر سوچا کہ آج ون وے توڑ کر بندر روڈ جایا جائے۔ ابھی میں نے یونین کاؤنسل کا دفتر کراس ہی کیا تھا کہ مجھے سڑک کے بائیں جانب ایک پُرانی سی عمارت نظر آئی۔ میں اندر داخل ہو گیا۔ سامنے میری منزل گُل بائی میٹر نٹی ہوم موجود تھی!

گل بائی میٹرنٹی ہوم" -- فوٹو بشکریہ لکھاری"عمارت میں مکمل سناٹا تھا۔ داخلی دروازے پر ایک زنگ آلود لوہے کی گرل لگی ہوئی تھی جس پر ایک بڑا تالہ لگا ہوا تھا۔ میں آہستہ آہستہ عمارت کے عقبی حصے میں پہنچ گیا۔ وہاں زندگی کے آثار نظر آئے۔ ایک چارپائی پر ایک عمر رسیدہ جوڑا بیٹھا تھا۔ اُنھوں نے معلوم کرنے پر بتایا کہ وہ گذشتہ 40 برسوں سے اس عمارت میں آباد ہیں۔ میٹرنٹی ہوم کب بند ہوا، وہ اس بارے میں کُچھ نہیں جانتے۔ اس بارے میں رونی بابا سے معلومات مل سکتی۔ جو پارسی ہیں اور اس عمارت کے نگران ہیں۔ اُن کے پاس رونی بابا کا کوئی ٹیلی فون نمبر بھی نہیں تھا۔ بس وہ یہ جانتے تھے کہ ان کا دفتر ڈینسو ہال میں ہے۔

فوٹو بشکریہ لکھاری --.بہرحال کیا عمارت ہے۔ جیسے ہی عمارت میں داخل ہوں گے، آپ کی نظر سب سے پہلے ایک خوب صورت فوارے پر پڑے گی۔ اُس کے بعد عمارت کی پیشانی پر شیشوں کی مینا کاری سے لکھا گُل بائی میٹر نیٹی ہے۔ بائیں جانب ایک یاد گار ہے۔ عمارت کے دونوں کناروں پر افتتاح کے حوالے سے یادگاری تختیاں لگی ہوئی ہیں۔

گل بائی میٹرنٹی ہوم” — فوٹو بشکریہ لکھاری” --.سیڑھیوں پر لکڑی کی تختیاں ہیں جن پر چندہ دینے والوں کے نام ہیں۔ غرض کہ اس عمارت کی خوب صورتی کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اس عمارت کو دیکھ کر ایک بیٹے کی ماں سے محبت کا بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے۔

فوٹو بشکریہ لکھاری --.میرا دل ہی نہیں چاہ رہا تھا کہ وہاں سے باہر نکلوں۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ جمشید میرے آس پاس موجود ہیں اور کہہ رہے ہیں۔ کیسا لگا؟ میں نے کس لگن سے یہ میٹرنٹی ہوم بنوایا تھا اور اب اس کا کیا حال ہے۔ خیر میں بوجھل قدموں سے باہر نکل آیا اتنی دیر میں ایک رکشہ میرے سامنے سے گذرا۔ اس کے پیچھے ایک شعر لکھا تھا جو مجھے حسبِ حال لگا۔ شعر عرض ہے؛~ ہمیں اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھامیری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی کم تھاجمشید نسروانجی کا ایک اور بڑا کارنامہ کراچی میں بسنے والے لوگوں کے لیے رہائش کی سہولتیں فراہم کرنا تھا۔ جمشید نے کراچی میں کوآپریٹو ہاؤسنگ کا آغاز کیا۔ 1922 میں وہ علاقہ جو اب جمشید کوارٹر کہلاتا ہے ایک ویران سی جگہ تھی۔کراچی میں امیروں کی تعداد بہت زیادہ نہ تھی۔ ان کی اکثریت کلفٹن، فریئر اور گارڈن کوارٹر میں آباد ہو چکی تھی۔ لیکن اس کے باوجود ان علاقوں میں بہت سے پلاٹوں پر تعمیرات نہیں ہوئی تھی۔اس دور میں متوسط طبقے کے لوگوں کے لیے مکان بنانا ممکن نہ تھا۔ جمشید نے طے کیا کہ کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی کو زمین مفت فراہم کی جائے گی اور مکان بنانے کے لئے قرضے بھی دیئے جائیں گے۔اس دور میں متوسط اور غریب طبقے کو اس طرح کی سہولتیں فراہم کرنے کا مقصد یہ سمجھا جاتا تھا کہ یہ شخص ضرور کوئی سُرخا (کمیونسٹ) ہوگا۔ اس حوالے سے انہیں زمینداروں اور تاجروں کی جانب سے سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ حتی کہ میونسپل کونسلرز نے بھی --جن کی اکثریت خود متوسط طبقہ سے تھی-- اپنے امیر مائی باپوں کی وجہ سے اس منصوبے کی حمایت نہیں کی۔

جمشید نسروانجی کی خستہ حال یادگار -- فوٹو بشکریہ لکھاری --.شاید اُس وقت بھی بلڈرمافیا کا وجود تھا، لیکن اس سب کے باوجود جمشید نے اس منصوبہ کو منظور کروانے میں کامیابی حاصل کر لی۔ چند ہی برسوں میں کوآپریٹو سوسائٹیوں نے اس علاقے میں متوسط اور غریب طبقے کے لوگوں کے لیے اچھے اور خوبصورت مکان تیار کر لیے مکان مالکان کی 95 فیصد افراد کا تعلق متوسط طبقے سے تھا۔کراچی میونسپلٹی نے اس علاقے کا نام جمشید کوارٹر رکھا۔ ایک بار ایک دوست سے ملاقات کے لیے جمشید کوارٹر جانا پڑا، میں نے عادت سے مجبور ہو کر ان سے پوچھا اس علاقے کا نام جمشید کوارٹر کیوں ہے۔ انھوں نے کہا بھائی جس طرح شہر کے دوسرے علاقوں کے نام ہیں اس طرح یہ بھی کوئی نام ہو گا… واۓ افسوس!

  اختر حسین بلوچ سینئر صحافی، مصنف اور محقق ہیں. سماجیات ان کا خاص موضوع ہے جس پر ان کی کئی کتابیں شایع ہوچکی ہیں. آجکل ہیومن رائٹس کمیشن، پاکستان      کے کونسل ممبر کی  حیثیت سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں

Read Comments