رجسٹرار سپریم کورٹ کا پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں پیش ہونے سے انکار، اراکین کا اظہارِ برہمی
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی جانب سے متعدد تنبیہات کے باوجود سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے ایک مرتبہ پھر پارلیمانی پینل کے سامنے پیش ہونے سے انکار کردیا اور اپنے تحفظات کا جواب دینے کے لیے ڈپٹی رجسٹرار سید شیر افگن کو بھیج دیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق رجسٹرار نے کمیٹی کو لکھے گئے ایک خط میں کہا کہ ’مجھے یہ بتانے کی ہدایت کی گئی ہے کہ یہ معاملہ عملدرآمد بینچ کے سامنے زیر التوا ہے، کوئی بھی شخص، اتھارٹی یا محکمہ زیر التوا معاملے میں مداخلت نہیں کر سکتا‘۔
مزید برآں اس عدالت کا رجسٹرار، پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسر کی حیثیت میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کا پابند نہیں ہے جیسا کہ فل کورٹ نے 20 جنوری 2010 کو ہونے والے اجلاس میں فیصلہ کیا تھا۔
کمیٹی کے تمام اراکین نے خط کے لہجے پر برہمی کا اظہار کیا اور اسے ’متکبرانہ، آئین کی خلاف ورزی‘ اور پارلیمانی کمیٹی کی توہین قرار دیا۔
پی اے سی جس نے عدالت عظمیٰ کے اکاؤنٹس پر بات چیت کے لیے دوبارہ ملاقات کی، اسے معلوم ہوا کہ سپریم کورٹ نے ڈپارٹمنٹ اکاؤنٹس کمیٹی (ڈی اے سی) کا ایک بھی اجلاس نہیں بلایا۔
ان کی مسلسل غیر حاضری پر بار بار ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے پی اے سی نے سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو ایک آخری وارننگ جاری کی کہ وہ کمیٹی اراکین کے سامنے حاضر ہو کر آڈیٹر جنرل کے دفتر کو مالیاتی ریکارڈ تک رسائی سے انکار کرنے کے سوالات کا جواب دیں۔
پی اے سی کے چیئرمین نور عالم خان نے زور دے کر کہا کہ اگر ڈپٹی رجسٹرار آ سکتا تو سپریم کورٹ رجسٹرار بھی آ سکتا تھا، یہ ذاتی معاملہ نہیں ہے، پی اے سی متعلقہ محکموں میں ہونے والی بے ضابطگیوں اور غبن کی جانچ کے لیے متعلقہ حکام سے مکمل ریکارڈ طلب کرنے کا حق محفوظ رکھتی ہے۔
رکن قومی اسمبلی شیخ روحیل اصغر نے رجسٹرار کی بے توقیری کو مثالی کیس بنانے کا مطالبہ کیا تاہم مشاہد حسین سید نے نور عالم خان پر زور دیا کہ وہ رجسٹرار کو حتمی موقع دیں۔
پی اے سی نے ایس سی کے ڈپٹی رجسٹرار کو اپنے اعلیٰ افسر کی جانب سے بات کرنے کا موقع دینے سے انکار کردیا لیکن نور عالم خان نے ان سے چیف جسٹس کو یہ بتانے کو کہا کہ ’اگر عدالت عظمیٰ کے پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسر پی اے سی کی ہدایات کی خلاف ورزی کرتے رہے تو ایک مثال قائم ہوجائے گی اور تمام دوسرے محکمے بھی تعاون کرنے سے انکار کر دیں گے۔
پی اے سی کے چیئرمین نے نوٹ کیا کہ دیامر بھاشا اور مہمند ڈیموں کا آڈٹ اس بات کا تعین کرنے کے لیے ضروری ہے کہ فنڈز کا انتظام کیسے کیا گیا۔
کمیٹی کا کہنا تھا یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ کیا اس وقت چیف جسٹس ثاقب نثار کو ڈیموں کی تعمیر کے لیے رقم جمع کرنے کے لیے نیا اکاؤنٹ کھولنے کا اختیار تھا۔