صدر عارف علوی کی آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل، آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر دستخط کی تردید
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل اور پاکستان آرمی ترمیمی بل پر دستخط کی تردید کردی۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (ٹوئٹر) پر جاری بیان میں عارف علوی نے کہا کہ خدا گواہ ہے، میں نے آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل 2023 اور پاکستان آرمی ترمیمی بل 2023 پر دستخط نہیں کیے کیونکہ میں ان قوانین سے متفق نہیں ہوں۔
انہوں نے لکھا کہ میں نے اپنے عملے سے کہا تھا کہ وہ دستخط کے بغیر بلوں کو مقررہ وقت کے اندر واپس بھیج دیں تاکہ انہیں غیر مؤثر بنایا جا سکے۔
ڈاکٹر عارف علوی نے لکھا کہ میں نے عملے سے کئی بار تصدیق کی کہ آیا وہ (دستخط کے بغیر) واپس بھجوائے جاچکے ہیں اور مجھے یقین دلایا گیا کہ وہ واپس بھجوائے جاچکے ہیں، تاہم مجھے آج پتا چلا کہ میرا عملہ میری مرضی اور حکم کے خلاف گیا۔
انہوں نے مزید لکھا کہ اللہ سب جانتا ہے، وہ ان شا اللہ معاف کر دے گا لیکن میں ان لوگوں سے معافی مانگتا ہوں جو اس سے متاثر ہوں گے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز یہ خبر سامنے آئی تھی کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر دستخط کر دیے ہیں جس سے دونوں مجوزہ بل قانون کی حیثیت اختیار کرگئے ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق دونوں بلوں کو سینیٹ اور قومی اسمبلی نے منظور کیا تھا اور چند ہفتے قبل حزب اختلاف کے اراکین اسمبلی کی شدید تنقید کے باوجود منظوری کے لیے صدر کو بھیج دیا گیا تھا۔
سیکرٹ ایکٹ کا سیکشن 6 (اے) انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہلکاروں، مخبروں یا ذرائع کی شناخت کے غیر مجاز انکشاف کو جرم قرار دیتا ہے، اس جرم کی سزا 3 سال تک قید اور ایک کروڑ روپے تک جرمانہ ہو گی۔
آرمی ایکٹ کے مطابق اگر کوئی شخص سرکاری حیثیت میں حاصل شدہ معلومات افشا کرے گا، جو پاکستان یا مسلح افواج کی سلامتی اور مفاد کے لیے نقصان دہ ہو یا ہو سکتی ہو، اسے 5 سال قید بامشقت کی سزا ہوگی۔
ایکٹ میں شامل ترامیم آرمی چیف کو مزید اختیارات دیتی ہیں اور سابق فوجیوں کو سیاست میں شامل ہونے یا ایسے منصوبے شروع کرنے سے روکتی ہے جو فوج کے مفادات سے متصادم ہو سکتے ہوں، اس میں فوج کو بدنام کرنے پر قید کی سزا بھی تجویز کی گئی۔
آرمی ایکٹ کے مطابق کوئی بھی فوجی اہلکار ریٹائرمنٹ، استعفے یا ملازمت سے برطرفی کے 2 برس بعد تک کسی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے گا۔
واضح رہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا یہ بیان عمران خان کے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت 15 اگست کو درج کی گئی ایف آئی آر کے سلسلے میں سابق وزیر خارجہ اور پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو گرفتار کیے جانے کے ایک روز بعد سامنے آیا ہے۔
یہ مقدمہ ایک امریکی نیوز ویب سائٹ ’دی انٹرسیپٹ‘ کی جانب سے حال ہی میں اُس سائفر کے مبینہ متن کے شائع ہونے کے بعد درج کیا گیا تھا جس کے بارے میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ اسی سائفر کا متن ہے جو مبینہ طور پر عمران خان کے پاس سے کھو گیا۔
توشہ خانہ کیس میں اٹک جیل میں قید عمران خان سے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے چند روز قبل سائفر کیس کے حوالے سے پوچھ گچھ کی تھی، سابق وزیراعظم کا دعویٰ ہے کہ انہیں گزشتہ سال ’امریکی سازش‘ کے تحت عہدے سے ہٹایا گیا تھا اور اس سائفر کے ذریعے اُن کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے امریکا کی جانب سے دھمکی دی گئی تھی۔
صدر عارف علوی نے متعدد بل واپس کردیے
گزشتہ ہفتے صدر عارف علوی نے ایک درجن سے زائد بلوں کو پارلیمنٹ میں دوبارہ غور کے لیے واپس کر دیا تھا۔
مسلم لیگ (ن) کی زیرقیادت حکومت کی مدت ختم ہونے پر دونوں ایوانوں سے واپس کیے گئے بلوں کو منظور کیا گیا تھا۔
ان بلوں میں کوڈ آف کرمنل پروسیجر ترمیمی بل بھی شامل ہے جس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، صحابہ کرام اور دیگر مذہبی شخصیات کی توہین کرنے والوں کی سزا میں اضافہ کرنا شامل ہے۔
واپس کیے گئے دیگر بلوں میں پریس، اخبارات، نیوز ایجنسیز اور کتب رجسٹریشن ترمیمی بل شامل ہیں، قانون میں جہاں کہیں بھی لفظ ’وفاقی حکومت‘ کو ’وزیراعظم‘ سے تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی ہے، صحافیوں کے تحفظ کو وزارت انسانی حقوق سے وزارت اطلاعات کو منتقل کرنے کی کوشش کے لیے صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلز کے تحفظ کا بل، نیشنل کمیشن فار ہیومن ڈویلپمنٹ (ترمیمی) بل این سی ایچ ڈی کے کاموں کی از سر نو وضاحت اور کارکردگی اور کاروبار کرنے میں آسانی کے لیے اس کے انتظامی ڈھانچے میں کچھ ترامیم کرنے کے لیے بل شامل ہیں۔
ایک اور بل درآمدات اور برآمدات (کنٹرول) (ترمیمی) بل 2023 تھا، جس کا مقصد مشکلات کے معاملات کو حل کرنا تھا جو کہ کاروباری برادری اور دیگر حلقوں سے درآمد و برآمد سے متعلق پابندیوں میں ایک بار کی نرمی کے لیے موصول ہوا تھا۔
صدر عارف علوی نے ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کا بل بھی واپس کر دیا ہے جس میں ایچ ای سی کے چیئرمین کی مدت ملازمت میں چار سال کا اضافہ کیا گیا ہے۔
واپس کیے گئے دیگر بلوں میں پبلک سیکٹر کمیشن ترمیمی بل، پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ سائنسز بل، ہورائزن یونیورسٹی بل، فیڈرل اردو یونیورسٹی ترمیمی بل، این ایف سی انسٹی ٹیوٹ، ملتان ترمیمی بل اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ٹیکنالوجی بل شامل ہیں۔
سیاستدانوں کا ردعمل
سیاستدان اور پی ٹی آئی رہنما فرخ حبیب نے اس پیشرفت کو انتہائی افسوسناک اور پورے نظام کے خاتمے کے مترادف قرار دے دیا۔
انہوں نے کہا کہ ملک کی وکلا برادری کو اب آئین کی بالادستی کے لیے اٹھ کھڑا ہونا چاہیے۔
سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے کہا کہ صدر کے ریمارکس ناقابل یقین ہیں، اور اپنا دفتر مؤثر طریقے سے چلانے میں ناکام رہنے کی وجہ سے استعفیٰ دینے پر زور دیا۔
سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ یہ تو ایک نیا پنڈورابکس کھل گیا، اگر صورتحال واقعی ایسی ہی ہے جیسی کہ صدر نے لکھی ہے تو یہ ریاست پاکستان، پارلیمنٹ، قانون سازی کے ساتھ ساتھ 24 کروڑ پاکستانیوں کی توہین ہے۔
سینیٹر نے لکھا کہ معاملات ایک دفعہ پھر عدالتوں میں جائیں گے، ملک کے اعلیٰ ترین منصب کے اس حال سے پاکستان کے حالات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، اللہ پاکستان پر رحم فرمائے۔