پاکستان

’خصوصی افراد کی حقیقی آبادی اور رجسٹرڈ تعداد کے درمیان فرق دور کرنے کی فوری ضرورت ہے‘

مردم شماری میں رجسٹرڈ افراد کی تعداد اصل تعداد سے بہت کم ہے اور یہ فرق 2023 کی مردم شماری کے بعد بھی پُر نہیں ہو سکے گا، این جی او

پاکستان میں خصوصی افراد کے لیے کام کرنے والی این جی او نے کہا ہے کہ پاکستان میں خصوصی افراد کی حقیقی آبادی اور رجسٹرڈ تعداد کے درمیان فرق دور کرنے کی فوری ضرورت ہے۔

نیٹ ورک آف آرگنائزیشنز ورکنگ فار پیپل ود ڈس ایبلٹیز پاکستان (NOWPDP) کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا کی تقریباً 16 فیصد آبادی کو معذوری کا سامنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہم اس تخمینے کو اپنے مقامی سیاق و سباق پر لاگو کرتے ہیں پاکستان میں معذور افراد کی آبادی 2کروڑ 70 لاکھ سے 3 کروڑ 30 لاکھ افراد تک پہنچ جائے گی۔

اس حوالے سے پاکستان شماریات بیورو اور نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ معذور افراد 1998 کی مردم شماری کے مطابق آبادی کا صرف 2.38 فیصد اور 2017 کے مطابق محض 0.48 فیصد تھے۔

اس سلسلے میں 2019 کے ڈان کے ایک مضمون میں بتایا گیا تھا کہ نمونے پر مبنی سروے سے پتہ چلتا ہے کہ معذور افراد کی اصل تعداد اس وقت کی آبادی کا 12 فیصد تھی جو 2017 کی مردم شماری میں ریکارڈ کی گئی معمولی آبادی کے حجم سے کہیں زیادہ ہے۔

مضمون کے مطابق 21 کروڑ آبادی کو دیکھتے ہوئے ان نمبروں کے درمیان فرق ڈھائی کروڑ کے مقابلے میں صرف 10 لاکھ ہے۔

بدقسمتی سے، یہ فرق 2023 کی مردم شماری کے بعد بھی پُر نہیں ہو سکے گا کیونکہ مردم شماری کے عمل میں زیادہ تر معذور افراد تک رسائی حاصل نہیں کی گئی جن میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو قوت گویائ یا سماعت سے محروم ہیں کیونکہ ڈیٹا جمع کرنے کے عمل کے دوران اشاروں کی زبان کے انٹرپریٹر یا دیگر معذور افراد کے لیے کوئی انتظام نہیں کیا گیا تھا۔

اس حوالے سے بتایا کہ دوسری بات یہ کہ چونکہ کچھ معذوریاں ظاہر نہیں ہوتیں اس لیے یہ خطرہ ہوتا ہے کہ مردم شماری کرنے والے یہ فرض کر سکتے ہیں کہ مذکورہ شخص میں کوئی معذوری نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان مسائل کے نتیجے میں پاکستان میں معذور افراد کی تعداد کم یا غلط رپورٹ ہو سکتی ہے تاہم اب بھی یہ امید لگائی جا سکتی ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو نہیں دہرائے گی۔

پاکستان میں معذور شخص کے طور پر پہچانے جانے کے لیے کسی کو خصوصی شناختی کارڈ کا اجرا ہوتا ہے، اس شناختی کارڈ کے اجرا کے بعد ہی تعلیم، صحت کی دیکھ بھال، سماجی بہبود کے پروگراموں اور روزگار کے مواقع تک رسائی یقینی بنائی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان کو شناخت دینے سے معاشرے میں معذور افراد کو بھی ایک مقام مل سکے گا اور یہ شناخت ان کے حقوق اور وقار کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہے، ایک خصوصی قومی شناختی کارڈ کے حصول کی بدولت معذور افراد یہ احساس ملتا ہے کہ وہ بھی معاشرے کا ایک فرد ہیں جس سے ان کی خود اعتمادی اور مجموعی فلاح و بہبود میں اضافہ ہو سکتا ہے تاہم، خصوصی شناختی کارڈ حاصل کرنے کا عمل طویل اور محنت طلب کام ہو سکتا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں معذور افراد کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بنائی گئی پالیسیاں اور وسائل کی تقسیم ان کی آبادی کے اصل حجم کی عکاسی نہیں کرتیں کیونکہ ان سب کو خصوصی شناختی کارڈ جاری نہیں کیا گیا اور این جی او نے رجسٹریشن کے اس خلا سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت پر زور دیا۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ رجسٹریشن کے خلا کو جلد از جلد پُر کرنے کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہوئے حکومت پاکستان نے مختلف صوبوں میں معذور افراد کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں۔

اس میں کہا گیا ہے کہ پنجاب میں صوبائی حکومت نے اس عمل کو تیز تر اور عوام تک رسائی آسان بنانے کے لیے آن لائن رجسٹریشن کا نظام متعارف کرایا ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ اگرچہ اس اقدام کی اپنی خوبیاں ہیں لیکن ساتھ ساتھ کچھ چیلنجز بھی درپیش ہیں جیسے کہ دیہی علاقوں میں انٹرنیٹ تک محدود رسائی اور نادرا کے اہلکاروں میں اس امر کی حساسیت کی کمی سرفہرست ہیں۔

پاکستان، بھارت یا بارش: میچ کس کے نام ہوگا؟

چاند کے کامیاب مشن کے بعد بھارت نے سورج پر تحقیق کیلئے راکٹ روانہ کردیا

والدہ کے انتقال کے بعد 3 روز تک لوگوں کو ہنساتی رہی، یاسرہ رضوی