مولانا فضل الرحمن، اسد قیصر کی ملاقات، سیاسی کمیٹی قائم کرنے کا فیصلہ
رہنما پاکستان تحریک انصاف اسد قیصر کی سربراہ جمعیت علمائے اسلام (ف) مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات ہوئی جس دوران دونوں رہنماؤں نے سیاسی کمیٹی کی تشکیل کا فیصلہ کرلیا۔
ڈان نیوز کے مطابق دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات میں ملک کی سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا، ملاقات میں ملک بھر بالخصوص خیبرپختونخوا میں امن و امان کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔
دونوں رہنماؤں نے واضح کیا کہ خیبرپختونخوا میں امن قائم کرنے کے لیے سیاسی جماعتوں کو کردار ادا کرنا ہوگا، فوجی آپریشن کسی مسئلے کا حل نہیں۔
دونوں جماعتوں کے درمیان قومی اسمبلی میں مل کر بھرپور اپوزیشن کا کردار ادا کرنے پر اتفاق ہوا، انہوں نے بجٹ کو آئی ایم ایف اور عوام دشمن قرار دے کر مسترد بھی کردیا۔
اسد قیصر اور مولانا فضل الرحمٰن افغانستان کے ساتھ برادرانہ تعلقات کے قیام کے لیے کردار ادا کرنے پر بھی متفق ہوئے، افغانستان کے ساتھ کراسنگ پوائنٹس پر اکنامک کوریڈور قائم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ تجارتی سرگرمیوں سے خطے میں معاشی استحکام آئے گا، عوام کو روزگار میسر آئے گا۔
ملاقات کے دوران سیاسی کمیٹی بنانے کا بھی فیصلہ کیا گیا، کمیٹی دونوں جماعتوں کے درمیان تحفظات کو دور کرے گی اور آئندہ کی سیاسی حکمت عملی کے لیے نکات کا تعین کرے گی۔
واضح رہے کہ 22 مئی کو جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے اپوزیشن اتحاد تحریک تحفظ آئین پاکستان میں شمولیت اور مشترکہ جدوجہد کے لیے پاکستان تحریک انصاف سے گارنٹی مانگنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ تحریک انصاف کے وفد سے ملاقات کا مقصد تعلقات میں بہتری اور تلخیوں کو دور کرنا ہے اور ہمیں ملک کے اندر خوشگوار سیاسی ماحول کی طرف بڑھنا چاہیے۔
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب، اسد قیصر اور ساجد ترین پر مشتمل تحریک انصاف کے وفد نے اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمٰن کی رہائش گاہ پر ان سے ملاقات کی جس میں ملک کی موجودہ صورتحال، 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات سمیت مختلف امور پر گفتگو کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ سیاسی ماحول میں رابطے بڑھتے چلے جائیں، تعلقات میں بہتری اور تلخیوں کو دور کرنا ہمارا مقصد ہے اور ہم اس جذبے کو خوش آمدید کہیں گے۔
یاد رہے کہ 24 مئی کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ مل کر حکومت کے خلاف جلد تحریک شروع کرنے کا اعلان کردیا تھا۔
اسد قیصر نے دعویٰ کیا تھا کہ حکومت کو ان ہاؤس تبدیلی یا نئے الیکشن کے ذریعے ختم کرنے کا آپشن ہے، تحریک انصاف اور مولانا فضل الرحمٰن اب دور نہیں رہ سکتے، مولانا فضل الرحمٰن اور ہمارا ایجنڈا ایک ہے اور ان کے ساتھ مل کر حکومت کے خلاف جلد تحریک شروع کریں گے۔
واضح رہے کہ مولانا فضل الرحمن نے 8 فروری کو منعقد کیے جانے والے عام انتخابات کے نتائج کو مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ 8 فروری کے انتخابی نتائج میں ملکی وجوہات کے علاوہ بیرونی اثرات نے بھی اہم کردار ادا کیا، انہوں نے مزید کہا کہ ان کی پارٹی کو اسٹیبلشمنٹ نے حقیقی مینڈیٹ نہیں دیا کیونکہ امریکا فلسطینی گروپ حماس اور افغان طالبان کے ساتھ ان کی جماعت کے روابط پر ناراض تھا۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے ان کی جماعت کو پارلیمان سے باہر رکھنے والی ’قوتوں‘ کو خبردار بھی کیا تھا کہ وہ اس معاملے کو عوامی احتجاج کے ذریعے سڑکوں پر لے جائیں گے۔
انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا سربراہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کہ الیکشن کے نتائج پر مجھ سے زیادہ نواز شریف پریشان ہیں۔
سربراہ جمعیت علمائے اسلام (ف) مولانا فضل الرحمٰن نے کہا تھا کہ یہ پارلیمنٹ دھاندلی کی پیداوار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حقیقت ہے کہ جمہوریت اپنا مقدمہ ہار رہی ہے، پارلیمنٹ اپنی اہمیت کھو رہی ہے، یہ پارلیمنٹ عوام کی نمائندہ نہیں ہے، اس پارلیمان میں کچھ لوگ خود کو حکمران کہیں گے مگر یہ لوگ قوم کے دلوں پر حکومت نہیں کرسکیں گے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ 2024 میں دھاندلی کا ریکارڈ توڑا گیا، 2024 میں انتخابی دھاندلی نے 2018 کا بھی ریکارڈ توڑدیا، ہم ان حالات کو تسلیم نہیں کرتے ہیں نا اس کو قبول کریں گے۔