ارشد شریف قتل کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن بنانے کی درخواست کی کاز لسٹ منسوخ
شہید صحافی ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنانے کی درخواست پر سماعت کی کازلسٹ منسوخ کردی گئی۔
ڈان نیوز کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے سینئر صحافی حامد میر کی درخواست پر 4 فروری کو سماعت کرنا تھی۔
تاہم، رجسٹرار آفس نے حامد میر کی درخواست کی کازلسٹ منسوخ کرکے کیس نو اسکوپ میں ڈال دیا۔
اس سے قبل بھی 7 نومبر 2024 کی سماعت کازلسٹ سے منسوخ کرکے کیس نو سکوپ لسٹ میں شامل کیا گیا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے 27 اگست کو جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
اِسی نوعیت کی ایک اور درخواست دائر ہونے پر دونوں کیسز کو یکجا کر کے دوبارہ سماعت کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔
پس منظر
خیال رہے کہ 24 اکتوبر کو معروف صحافی اور سینیئر اینکر پرسن ارشد شریف کے اہل خانہ نے تصدیق کی تھی کہ ارشد شریف کو کینیا میں گولی مار کر قتل کردیا گیا ہے۔
ارشد شریف کی بیوہ جویریہ صدیق نے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ ’آج میں نے اپنا دوست، شوہر اور پسندیدہ صحافی کھو دیا، پولیس نے بتایا تھا کہ ارشد شریف کو کینیا میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا ہے‘۔
بعد ازاں، وزیراعظم کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے کینیا کے صدر ولیم روٹو کو ٹیلی فون کرکے معروف صحافی ارشد شریف کے قتل کی غیرجانب دارانہ اور شفاف تحقیقات پر زور دیا تھا۔
دریں اثنا وزارت خارجہ کی جانب سے ارشد شریف کی ناگہانی موت پر گہرے رنج اور سوگوار خاندان سے دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے بتایا گیا تھا کہ کینیا میں پاکستانی حکام نے ارشد شریف کی میت کی شناخت کرلی ہے۔
یاد رہے کہ 27 اکتوبر کو ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم نے غیرمتوقع ہنگامی پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ ارشد شریف کی وفات کے حوالے سے بڑے واقعات کے حقائق تک پہنچنا بہت ضروری ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ خیبر پختونخوا حکومت نے اگست میں ایک خط جاری کیا جس میں کہا گیا تھا کہ کالعدم ٹی ٹی پی سے الگ ہونے والا گروپ ارشد شریف کو نشانہ بنانا چاہتا ہے، ارشد شریف کو کسی نے دبئی جانے پر مجبور نہیں کیا تھا۔
واضح رہے کہ 30 مئی کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے صحافی حامد میر کی جانب سے ارشد شریف کے قتل کی جوڈیشل کمیشن سے تحقیقات کرانے کی درخواست پر اٹارنی جنرل سے معاونت طلب کی تھی۔