رہائشی عمارتوں کا کمرشل استعمال، جماعت اسلامی، پاسبان کی درخواستوں پر نوٹس جاری
سندھ ہائی کورٹ نے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) کی جانب سے کراچی بلڈنگ اینڈ ٹاون پلاننگ ریگولیشن میں ترمیم سے متعلق جماعت اسلامی اور پاسبان کی درخواستیں پہلے سے زیر سماعت درخواست کے ساتھ یکجا کرکے فریقین کو 22 اپریل کے لیے نوٹس جاری کر دیے۔
ڈان نیوز کے مطابق سندھ ہائی کورٹ میں کراچی بلڈنگ اینڈ ٹاون پلاننگ ریگولیشن میں ترمیم سے متعلق جماعت اسلامی اور پاسبان کی درخواستوں پر سماعت ہوئی۔
جماعت اسلامی کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ رہائشی پلاٹ کو کمرشل سرگرمیوں کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا، رہائشی پلاٹ کو کمرشل میں تبدیل کرنے کا باضابطہ طریقہ کار موجود ہے۔
وکیل نے کہا کہ ماسٹر پلان اور کے ڈی اے سمیت دیگر اداروں سے عدم اعتراض سرٹیفکیٹ (این او سی) اور شرائط پوری کرنا ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ ترمیم کے بعد کسی بھی رہائشی پلاٹ کے کمرشل استعمال کے لیے صرف ایس بی سی اے کا این او سی درکار ہوگا، زمین کی استعمال میں تبدیلی کا پورا طریقہ کار بائی پاس کردیا گیا ہے۔
سندھ ہائی کورٹ نے وکیل کا مؤقف سن کر جماعت اسلامی اور پاسبان کی درخواستیں پہلے سے زیر سماعت درخواست کے ساتھ یکجا کرکے فریقین کو 22 اپریل کے لیے نوٹس جاری کر دیے۔ مزید سماعت اب 22 اپریل کو کی جائے گی۔
یاد رہے کہ 30 مارچ 2025 کو ڈان اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ حکومت سندھ نے شہر بھر میں رہائشی علاقوں میں غیر قانونی طور پر کام کرنے والے ہزاروں تجارتی اداروں کو بچانے کے لیے موجودہ بلڈنگ ریگولیشنز میں ترمیم کی ہے، تاکہ وہ مالی فوائد کے لیے گھروں کا استعمال جاری رکھ سکیں۔
رپورٹ کے مطابق اس متنازع اقدام سے شاید کچھ کاروباروں کو بچایا جا سکتا ہے، لیکن یہ پہلے سے خراب شہر کے بنیادی ڈھانچے کو بھی تباہ کر سکتا ہے، کیوں کہ ہر رہائشی علاقہ جلد ہی دکانوں، اسکولوں اور کلینکس سمیت تجارتی سرگرمیوں سے بھر جائے گا۔
سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے کراچی بلڈنگ اینڈ ٹاؤن پلاننگ ریگولیشنز (کے بی ٹی پی آر) 2002 میں ترمیم کرتے ہوئے رہائشی پلاٹوں کو کاروباری اور تفریحی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دے دی تھی۔
واضح رہے کہ سندھ ہائی کورٹ کے مختلف بینچز نے بلڈنگ اور ٹاؤن پلاننگ قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے متعلقہ رہائشی علاقوں میں اسکولوں، ریستوران اور دیگر تجارتی اداروں کو چلانے کے خلاف شہریوں کی جانب سے دائر متعدد درخواستوں پر احکامات جاری کیے تھے۔