ججز سنیارٹی تنازع: اسلام آباد ہائیکورٹ بار آج کی سماعت میں پیروی کا فیصلہ نہ کرسکی
اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن (آئی ایچ سی بی اے)، جو ججز کی سنیارٹی کے تنازع میں ایک اہم فریق ہے، سپریم کورٹ میں 14 اپریل (آج) کو ہونے والی اہم سماعت سے قبل اپنے سابق صدر کی جانب سے دائر درخواست کی پیروی کرنے کے بارے میں فیصلہ نہیں کر سکی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس معاملے سے باخبر ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ بار کی موجودہ قیادت نے اب تک باضابطہ طور پر یہ فیصلہ نہیں کیا ہے کہ آیا بار دیگر ہائی کورٹس سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں منتقل ہونے والے ججز کی انٹر سی سنیارٹی سے متعلق تنازع میں فریق بنے گی یا نہیں۔
یہ پیشرفت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب سپریم کورٹ اسلام آباد ہائی کورٹ کے 5 سینئر ججز کی جانب سے دائر درخواست سمیت اسی طرح کی درخواستوں کی سماعت کے لیے تیار ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے سابق صدر رفعت علی آزاد نے اپنی مدت ختم ہونے سے قبل سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی، تاہم بار کے صدر سید واجد علی شاہ گیلانی کی قیادت میں موجودہ نمائندوں کو مبینہ طور پر ’ملاقات کے منٹس یا قراردادوں جیسے کوئی باضابطہ ریکارڈ‘ نہیں ملے، جس میں رفعت آزاد کو ایسوسی ایشن کی طرف سے درخواست دائر کرنے کا اختیار دیا گیا ہو۔
ذرائع نے دعویٰ کیا کہ سابق صدر کی جانب سے معروف وکیل فیصل صدیقی کو وکیل مقرر کرنے کے باوجود بار کی موجودہ قیادت نے اس کیس میں کسی قانونی نمائندگی کی اجازت نہیں دی۔
اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے صدر سید واجد علی شاہ گیلانی نے کہا تھا کہ قانونی چارہ جوئی میں حصہ لینے کا فیصلہ ایگزیکٹو باڈی کے باضابطہ اجلاس کے بعد کیا جائے گا، تاہم نہ تو ایسا کوئی اجلاس ہوا اور نہ ہی کوئی قرارداد منظور کی گئی، عام طور پر بار کے اجلاسوں کا ایجنڈا پبلک کیا جاتا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے سابق صدر رفعت علی آزاد نے ’ڈان‘ کو بتایا کہ بار کے نمائندے کی حیثیت سے انہوں نے درخواست دائر کی تھی اور سینئر وکیل فیصل صدیقی کو وکیل بھی مقرر کیا تھا، تاہم درخواست پر دستخط کرنے والے سابق سیکریٹری شفقت تارڑ نے تسلیم کیا کہ درخواست دائر کرنے سے قبل بار نے ایگزیکٹو یا جنرل باڈی کا کوئی اجلاس نہیں بلایا تھا۔
اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ موجودہ بار نے ابتدائی طور پر درخواست واپس لینے پر غور کیا تھا لیکن کئی وکلا بشمول معروف انسانی حقوق کے کارکنوں کی جانب سے ایک خط موصول ہونے کے بعد ایسا کرنے سے گریز کیا گیا، جس میں وید واجد علی شاہ گیلانی کو ان کے ’انتخابی مینڈیٹ‘ کی یاد دہانی کرائی گئی تھی۔
جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس شاہد بلال، جسٹس صلاح الدین پنہور اور جسٹس شکیل احمد پر مشتمل سپریم کورٹ کا 5 رکنی آئینی بینچ اسلام آباد ہائی کورٹ، کراچی بار ایسوسی ایشن اور اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے دائر درخواستوں پر سماعت کرے گا۔
دوسری جانب جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے استدعا کی ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں منتقل ہونے والے ججز کو آئین کے آرٹیکل 194 کے تحت حلف اٹھانے تک عدالت کا مستقل رکن نہیں سمجھا جا سکتا۔
درخواست گزاروں نے 10 فروری کو جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی جانب سے زیر غور سنیارٹی لسٹ کو بھی چیلنج کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس میں ٹرانسفر کیے گئے ججوں کو غلط طریقے سے شامل کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے سپریم کورٹ میں ترقی کے لیے نامناسب سفارشات کی گئیں۔
درخواست گزاروں نے مطالبہ کیا کہ جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر کی بطور قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ تقرری کا 12 فروری کا نوٹی فکیشن کالعدم قرار دیا جائے۔