پاکستان

اخترمینگل دھرنا ختم کرنے کا اعلان کریں، ریاست کو مجبور نہ کریں، خالد مگسی

بلوچستان کے مسائل دھرنوں سے حل نہیں ہوں گے، سیاست چلتی رہتی ہے لیکن ریاست کو کمزور نہیں سمجھنا چاہیے، وفاقی وزیر کی باپ پارٹی رہنماؤں کے ساتھ پریس کانفرنس

وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی خالد مگسی نے بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اختر مینگل کو دھرنا ختم کرکے بات چیت کی طرف آنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ریاست کو مجبور نہ کریں ، رٹ قائم رکھنے کے لیے ایکشن لینا پڑتا ہے۔

خالد حسین مگسی نے سابق چیئرمین سینیٹ سمیت باپ پارٹی کے دیگر رہنماؤں کے ہمراہ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ بلوچستان کے حوالے سے بات چیت کی گنجائش ہے، دھرنے والے نظرثانی کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے مسائل دھرنوں سے حل نہیں ہوں گے، سیاست چلتی رہتی ہے لیکن ریاست کو کمزور نہیں سمجھنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی صورتحال پر تشویش ہے، اختر مینگل مذاکرات کی میز پر آئیں اور دھرنے پر نظر ثانی کریں، یہ سب ہمارے بھائی ہیں لوگوں کے لیے سوچیں۔

خالد حسین مگسی کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ بلوچستان کے عوام کے مسائل حل ہوں، صوبائی حکومت اور ریاست اپنی رٹ قائم رکھنے کے لیے اقدامات کررہی ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ سابق چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے اختر مینگل سے ملاقات کی جب کہ میں نے خود بھی ان سے رابطہ کیا، سیاست میں حالات تبدیل ہوتے رہتے ہیں مینگل صاحب اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں۔

واضح رہے کہ بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل (بی این پی۔ایم) کا ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کی دیگر خواتین کارکنوں کی گرفتاری کے خلاف احتجاجی دھرنا تیسرے ہفتے میں داخل ہوگیا۔

حکومت نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی چیف آرگنائزر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور دیگر خواتین کارکنوں کی رہائی کے مطالبے کے لیے وڈھ سے شروع ہونے والے لانگ مارچ کو کوئٹہ میں داخل ہونے کی اجازت دینے سے انکار کردیا تھا۔

حکومت کے ساتھ مذاکرات میں تعطل کے پیش نظر پیر کو ایک کثیر الجماعتی کانفرنس (ایم پی سی) بلانے کا فیصلہ کیا تھا۔

بعد ازاں، لکپاس میں کثیر الجماعتی کانفرنس میں قومی سلامتی کونسل کے حالیہ فیصلے بالخصوص اس کی ’سخت گیر‘ پالیسی کو مسترد کرتے ہوئے تمام خواتین کارکنوں، رہنماؤں اور کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا۔

کانفرنس کے مطالبات

کثیرالجماعتی کانفرنس میں منظور کی گئی ایک قرارداد میں لانگ مارچ اور دھرنے کے دوران بی این پی اور بی وائی سی کے رہنماؤں اور کارکنوں کو ہراساں کرنے اور گرفتاریوں کی مذمت کی گئی۔

قرارداد میں وڈھ میں پرامن احتجاج کے دوران کارکن عنایت اللہ لہری کے قتل کی مذمت کی گئی اور ذمہ داروں کے خلاف فوری قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔

درخواست میں عمران خان، علی وزیر، ڈاکٹر یاسمین راشد اور سندھ سے تعلق رکھنے والے کینال تحریک کے کارکنوں سمیت ملک بھر کے تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا گیا۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت بلوچستان میں اپنی جارحانہ پالیسیاں ختم کرے جن میں فوجی آپریشنز، جبری گمشدگیاں اور امن عامہ برقرار رکھنے کے قانون کے تحت گرفتاریاں شامل ہیں۔

دیگر مطالبات میں مائنز اینڈ منرلز ایکٹ 2025 کی منسوخی، پی پی ایل معاہدہ ختم کرنا، ریکوڈک منصوبے میں بلوچستان کے 50 فیصد حصے کو تسلیم کرنا، قومی شاہراہوں، سرحدی علاقوں اور ایف سی، کوسٹ گارڈز اور دیگر وفاقی ایجنسیوں کے زیر انتظام استحصالی چیک پوسٹوں کا خاتمہ شامل ہے۔

کثیر الجماعتی کانفرنس میں بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے قومی سطح پر مذاکرات، 1948 کے الحاق کے معاہدے سے منسلک آئینی تحفظ کے نفاذ اور ناقص حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے کسانوں، تاجروں، ٹرانسپورٹرز اور کاروباری مالکان کو ہونے والے اربوں کے نقصانات کی تلافی کا مطالبہ بھی شامل تھا۔

کانفرنس سے سردار اختر مینگل، مولانا عبدالغفور حیدری، سردار کمال خان بنگلزئی، اصغر خان اچکزئی، عبدالمتین اخونزادہ، میر اسرار اللہ زہری، نواب محمد خان شاہوانی اور دیگر نے خطاب کیا۔