مشترکہ مفادات کونسل نے دریائے سندھ سے کینالز نکالنے کا منصوبہ مسترد کر دیا
وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) نے دریائے سندھ سے کینالز نکالنے کا منصوبہ مسترد کر دیا۔
ڈان نیوز کے مطابق 8 رکنی کونسل کے ارکان میں چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ، وفاقی وزرا اسحٰق ڈار، خواجہ آصف اور امیر مقام بھی شامل ہیں جبکہ کونسل کے اجلاس میں 25 افراد خصوصی دعوت پر شرکت کی۔
جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کی زیرصدارت مشترکہ مفادات کونسل کا 52 واں اجلاس منعقد ہوا۔
اجلاس میں وفاقی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ سی سی آئی کی رضا مندی کے بغیر کوئی نہریں تعمیر نہیں ہوں گی، وفاقی حکومت نے نئے نہری منصوبے باہمی اتفاق رائے کے بغیر نہ بنانے کا فیصلہ کیا۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ تمام صوبوں کی مشاورت سے طویل المدتی زرعی اور آبی حکمت عملی تیار کی جائے گی۔
اعلامیے کے مطابق زرعی ترقی اور پانی کے استعمال کے لیے وفاق اور صوبوں پر مشتمل کمیٹی قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، کمیٹی تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے طویل المدتی تجویز کرے گی۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ نئی نہری تعمیرات کی قومی اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی (ایکنک) کی عبوری منظوری اور انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کا سرٹیفکیٹ واپس لے لیا گیا۔
مشترکہ مفادات کونسل کی بھارتی یکطرفہ غیر قانونی اقدامات کی بھرپور مذمت
مشترکہ مفادات کونسل نے قومی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے بھارتی غیر قانونی اقدامات اور بھارت کی جانب سے کسی بھی جارحیت کے تناظر میں پورے ملک و قوم کے لیے اتحاد اور یکجہتی کا پیغام دیا۔
اعللامیے کے مطابق مشترکہ مفادات کونسل کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک پُر امن اور ذمہ دار ملک ہے لیکن ہم اپنا دفاع کرنا خوب جانتے ہیں، تمام صوبائی وزرائے اعلیٰ نے بھارت کے غیر قانونی اقدامات کے خلاف یک زبان ہو کر اتحاد و قومی یکجہتی کا اظہار کیا۔
مشترکہ مفادات کونسل نے سینیٹ میں بھارتی غیر قانونی و غیر ذمہ دارانہاقدامات کے خلاف قرارداد کی بھر پور پذیرائی کی۔
سی سی آئی کے مطابق سندھ طاس معاہدے کی معطلی اور پاکستان کا پانی روکنے کی صورت میں پاکستان اپنے آبی مفادات کے تحفظ کا حق رکھتا ہے ۔
جاری اعلامیے کے مطابق اجلاس کو سی سی آئی سیکیریٹیریٹ کی جانب سے مشترکہ مفادات کونسل کی مالی سال 22-2021، مالی سال 23-2022 اور مالی سال 24-2023 کی رپورٹس پیش کی گئیں۔
*مشترکہ مفادات کونسل نے سی سی آئی سیکیریٹیریٹ ریکروٹمنٹ رولز کی منظوری دے دی۔
اسی طرح اجلاس کو کابینہ ڈویژن کی جانب سے نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی کی سال 21-2020، سال 22-2021، سال 23-2022 اور اسٹیٹ آف انڈسٹری کی سال 2021، 2022 اور 2023 کی رپورٹس پیش کی گئیں۔
قبل ازیں، مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس ختم ہونے کے بعد وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل نے کینال منصوبہ مسترد کر دیا، ہر صوبے کو اس کے حصے کا پانی دیا جائےگا، صوبوں کے مسائل پر بیٹھ کر بات کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دسویں اور گیارہویں قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ کا ایک آئینی مسئلہ ہے، وہ حل ہوگا لیکن رویژن ہو رہی ہے، حق اب دیا جائے گا، دوسرا اے جی این قاضی فارمولے کے مطابق ’خالص ہائیڈل منافع‘ کے معاملے کو بھی جون میں ہونے والے دوسرے ایجنڈے میں شامل کر لیا گیا ہے۔
علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ ایجنڈے میں آنے کا مطلب یہی ہے کہ وہ ہمارا ایسا حق ہے کہ وہ بھی ہم حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے بعد تمباکو بطور زراعت ہمیں نہیں دیا گیا، یہ ایک کیش کراپ ہے، اس کا حق بھی ہمارے صوبے کو دیا جائے گا، میں سمجھتا ہوں کہ آج کی بہت بڑی کامیابی ہے، اس سے ہمارے صوبے کو 100 ارب روپے کا فائدہ ہوگا، یہ آئینی حق ہے، جو ہمیں نہیں ملا تھا، فیصلہ ہو گیا ہے کہ اب وہ سی سی آئی کے ایجنڈے پر آئے گا اورا ہمارا حق ملے گا۔
واضح رہے کہ قبل ازیں، 24 اپریل کو وزیراعظم شہباز شریف نے بلاول بھٹو سے ملاقات کے بعد گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) اجلاس میں فیصلہ ہونے تک کوئی نئی نہر نہیں بنے گی، طے کیا ہے کہ سی سی آئی اجلاس 2 مئی بروز جمعہ بلایا جارہا ہے۔
تاہم، مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس 2 مئی کے بجائے آج منعقد کیا گیا۔
واضح رہے کہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر اور وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے 15 فروری کو چولستان کے اس بڑے منصوبے کا افتتاح کیا تھا جس کا مقصد جنوبی پنجاب کی زمینوں کو سیراب کرنا تھا۔
وفاقی حکومت کی جانب سے جنوبی پنجاب میں 1.2 ملین ایکڑ ’بنجر زمین‘ کو سیراب کرنے کے لیے 6 نہریں تیار کرنے کے لیے شروع کیے گئے 3.3 ارب ڈالر کے گرین پاکستان انیشی ایٹو (جی پی آئی) کی پیپلز پارٹی سمیت کسانوں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز نے سخت مخالفت کی۔
حکومت کی اہم اتحادی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی سمیت سندھ کی قوم پرست و دیگر سیاسی جماعتوں اور وکلا برادری نے 6 نہریں نکالنے کے خلاف مسلسل احتجاج جاری رکھا ہے۔