کاروبار

وزیراعظم کے وعدے کے باوجود بجلی کی قیمتوں میں ایک روپیہ 52 پیسے کمی مئی تک مؤخر

متعدد علاقوں میں بل جاری، آئندہ مہینوں میں زائد لوڈ ڈیمانڈ اور پن بجلی کی کم دستیابی سے فیول کاسٹ ایڈجسٹمنٹ بڑھ سکتی ہے، سی سی پی اے کا نیپرا کی سماعت میں مؤقف

موسم گرما میں ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے سرکاری انتباہ کے باوجود وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے بجلی کی اوسط قیمتوں میں ایک روپیہ 52 پیسے فی یونٹ کٹوتی کا وعدہ رواں ماہ صارفین تک نہیں پہنچا، یہ فائدہ مئی تک مؤخر ہوگیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق منگل کو نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کے چیئرمین وسیم مختار کی سربراہی میں ہونے والی عوامی سماعت کے دوران سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (سی پی پی اے) کے نمائندوں نے کہا کہ آئندہ مہینوں میں 20 فیصد زیادہ لوڈ ڈیمانڈ اور پن بجلی کی کم دستیابی کی وجہ سے ماہانہ فیول کاسٹ ایڈجسٹمنٹ میں اضافے کا امکان ہے۔

ایک سوال کے جواب میں نیپرا کے کیس افسر نے بتایا کہ سہ ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ میں تقریباً 52 ارب روپے کی کمی کا اثر آئندہ 3 ماہ مئی، جون اور جولائی کے لیے تقریباً ایک روپیہ 52 پیسے فی یونٹ ہوگا۔

ایکسپورٹ سیکٹر کی نمائندگی کرنے والے کنوینرز نے مطالبہ کیا کہ ان کی درخواست اپریل سے جون تک نافذ العمل ہونی چاہیے، جس کے لیے وزیراعظم نے اعلان کیا تھا اور اسی بنیاد پر انہوں نے ایکسپورٹ آرڈرز بک کرائے تھے۔

نیپرا مئی سے جولائی کے لیے اپنی درخواست کی گزشتہ وضاحت سے آگے نہیں بڑھ پائی، لیکن یہ واضح تھا کہ کچھ علاقوں میں اپریل کے بل پہلے ہی جاری کیے جاچکے ہیں اور انہیں واپس نہیں لیا جا سکتا۔

چیئرمین نیپرا نے حیدرآباد، ملتان اور کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنیوں کے نمائندوں کو ان کی اعلیٰ قیادت کی غیر موجودگی پر مؤقف پیش کرنے کی اجازت نہیں دی اور ان سے وضاحت طلب کی۔

وسیم مختار نے پاور ڈویژن کی نمائندگی نہ ہونے پر بھی برہمی کا اظہار کیا اور ہدایت کی کہ وفاقی سیکریٹری توانائی کو بھی خط لکھا جائے۔

سی پی پی اے نے گزشتہ سال کے مقابلے میں مارچ میں بجلی کی کھپت میں تقریباً 4.4 فیصد اضافے کی اطلاع دی ہے، اور جنوری تا مارچ 2025 کی مدت کے لیے منفی سہ ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ (کیو ٹی اے) اور مارچ میں استعمال ہونے والی بجلی کے لیے مزید 3 پیسے فی یونٹ منفی فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ (ایف سی اے) کا مطالبہ کیا۔

1 روپیہ 51 پیسے فی یونٹ منفی کیو ٹی اے (جس میں مالی سال 25 کی تیسری سہ ماہی کے لیے تمام ڈسکوز کی جانب سے پہلے ہی 51 ارب 50 کروڑ روپے زائد چارج کیے جا چکے ہیں) کو وزیر اعظم کی جانب سے 3 ماہ یعنی اپریل تا جون 2025 کے لیے ٹیرف میں کمی کا حصہ بنایا جا چکا ہے۔

سہ ماہی ٹیرف میں کمی کم صلاحیت چارجز، آپریشنز اور دیکھ بھال کے اخراجات، بڑھتی ہوئی فروخت کی وجہ سے مقررہ اخراجات اور کم سسٹم نقصانات کے امتزاج سے پیدا ہوتی ہے، جس کی بنیادی وجہ شرح تبادلہ میں نسبتاً استحکام اور شرح سود میں کمی ہے۔

ایندھن کی قیمت میں کمی کی بنیادی وجہ نیپرا کی جانب سے یکم جولائی 2024 سے بیس ٹیرف میں 20 فیصد اضافے کی اجازت دینا ہے، مارچ کے دوران بجلی کی کُل فراہمی کا تقریباً 75 فیصد مقامی ایندھن کے ذرائع سے آیا، جس میں سے تقریباً 20 فیصد صفر فیول لاگت پر آیا۔

سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی نے مارچ کے لیے ایندھن کی لاگت میں منفی ایڈجسٹمنٹ کی درخواست دائر کی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ بجلی کی کھپت گزشتہ سال کے اسی مہینے کے مقابلے میں 4.4 فیصد زیادہ اور فروری کے مقابلے میں تقریباً 22 فیصد زیادہ ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ڈسکوز کو فراہم کی جانے والی بجلی مارچ میں 8 ہزار 114 گیگا واٹ گھنٹے (گیگا واٹ) رہی، جو فروری میں 6 ہزار 666 گیگا واٹ تھی۔

پاور کمپنیوں نے اپنی درخواستوں میں دعویٰ کیا ہے کہ مارچ میں ایندھن کی اوسط قیمت 9.22 روپے فی یونٹ رہی جو گزشتہ سال کے اسی مہینے میں 9.34 روپے فی یونٹ تھی۔

سی پی پی اے نے بتایا کہ مارچ میں 79 ارب 50 کروڑ روپے (9.46 روپے فی یونٹ) کے تخمینہ ایندھن کے اخراجات سے تقریباً 8 ہزار 409 گیگاواٹ بجلی پیدا کی گئی، جس میں سے 8 ہزار 114 گیگا واٹ بجلی 74 ارب 85 کروڑ روپے (9.22 روپے فی یونٹ) کی لاگت سے ڈسکوز کو فراہم کی گئی۔

تاہم مارچ میں پہلے ہی چارج کی جانے والی ریفرنس فیول لاگت 9 روپے 25 پیسے فی یونٹ تھی، لہٰذا 3 پیسے فی یونٹ ریفنڈ کیا گیا۔

ہائیڈرولوجیکل حالات ناسازگار ہونے کی وجہ سے ہائیڈرو پاور مجموعی گرڈ میں تقریباً 15.42 فیصد حصص کے ساتھ اپنی پہلی پوزیشن کھو چکی ہے، گزشتہ سال مارچ میں ہائیڈرو پاور نے گرڈ میں 28 فیصد بجلی کا حصہ ڈالا تھا، نیوکلیئر انرجی 26.4 فیصد حصے کے ساتھ قومی گرڈ کو بجلی فراہم کرنے والا سب سے بڑا شعبہ بن کر ابھرا۔

نیشنل گرڈ میں تیسرا سب سے بڑا حصہ آر ایل این جی کا 18.17 فیصد اور مقامی کوئلے کا 16.57 فیصد رہا، اس کے بعد مقامی گیس کا حصہ 11.64 فیصد رہا، قومی گرڈ میں درآمدی کوئلے سے آنے والی بجلی کا حصہ 6.5 فیصد ہے۔