دنیا

عالمی ادارہ صحت کی ہیلتھ ورکرز سے خواتین کی ختنہ نہ کرنے کی اپیل

اس وقت بھی دنیا بھر کے 30 ممالک میں خواتین کی ختنہ کرنے کا عمل جاری ہے اور اندازے کے مطابق اب تک 23 کروڑ کے قریب خواتین ختنہ کے عمل سے گزر چکی ہیں، ادارہ

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے ڈاکٹرز اور دوسرے ہیلتھ ورکرز سے اپیل کی ہے کہ وہ خواتین کی ختنہ یعنی ’فیمیل جینیٹل میوٹیشن‘ (female genital mutilation) ’ایف جی ایم‘ کے عمل کو سر انجام دینے کے بجائے اس کی حوصلہ شکنی کریں اور عوام کو اس کے نقصانات سے آگاہ کریں۔

خبر رساں دارے ’ایجنسی پریس فرانس‘ (اے ایف پی) کے مطابق عالمی ادارہ صحت نے حال ہی میں دنیا بھر کے ہیلتھ ورکرز سے مطالبہ کیا کہ وہ خواتین کی ختنہ کے عمل کو سر انجام دینے کے بجائے اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور خواتین کی زندگیاں بچانے میں کردار ادا کریں۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس وقت بھی دنیا بھر کے 30 ممالک میں خواتین کی ختنہ کا عمل جاری ہے اور اندازے کے مطابق اب تک 23 کروڑ کے قریب خواتین اس عمل سے گزر چکی ہیں۔

ڈبلیو ایچ او کا کہنا تھا کہ خواتین کی ختنہ کیا جانا ان کے لیے سنگین صحت کے مسائل پیدا کر سکتا ہے، اس سے خواتین میں نہ صرف شدید انفیکشن ہوسکتا بلکہ وہ اس سے بانجھ پن کا شکار بھی ہوسکتی ہیں اور انہیں بچوں کی پیدائش میں بھی مشکلات اور تکالیف کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

عالمی ادارے نے خواتین کی ختنے کے عمل کو غیر قانونی اور غیر انسانی عمل قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ہیلتھ ورکرز اس عمل کو سر انجام دینے کے بجائے اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔

ڈبلیو ایچ او کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں ختنہ کے عمل سے گزرنے والی ہر چار میں سے ایک خاتون کی ختنہ ہیلتھ ورکرز کرتے ہیں جو کہ شرمناک عمل ہے۔

ادارے نے تسلیم کیا کہ 1990 کے بعد خواتین کی ختنہ میں نمایاں کمی دیکھی گئی ہے اور متعدد ممالک نے اسے غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اس پر سزائیں بھی مقرر کی ہیں لیکن اس باوجود یہ عمل آج بھی جاری ہے۔

ادارے نے خواتین کی ختنہ کو خواتین کے بنیادی حقوق کے خلاف بھی قرار دیا اور کہا کہ اس عمل سے بیماریوں کا بوجھ بڑھ رہا ہے۔

خیال رہے کہ خواتین کی ختنہ مشرق وسطیٰ اور براعظم افریقہ کے زیادہ تر ممالک میں سر انجام دیا جاتا ہے، یہ عمل خصوصی طور پر لڑکیوں کے کم عمر ہوتے وقت کردیا جاتا ہے۔

عمومی طور پر چند ہفتوں کی بچیوں سمیت بلوغت کو پہنچنے والی بچیوں کی ختنہ کی جاتی ہے۔

خواتین کی ختنہ کی متعدد اقسام ہیں، جس میں سے کسی میں لڑکیوں کی اندام نہانی کے کچھ اعضا کاٹ دیے جاتے ہیں، کسی میں مکمل اعضا کاٹ دیے جاتے ہیں جب کہ بعض کیسز میں لڑکیوں کی اندام نہانی کو مکمل طور پر بند کرکے صرف پیشاب اور ماہواری کے لیے ہلکا سا سوراخ چھوڑ دیا جاتا ہے۔

خواتین کو اس عمل سے گزارنے والے زیادہ تر قبائل کا ماننا ہوتا ہے کہ وہ اس عمل سے بچیوں کے کنوارے پن کی حفاظت کو یقینی بنانے سمیت انہیں شادی کے بعد جلد بچے پیدا کرنے کے قابل بنانے کے لیے یہ عمل کرواتے ہیں۔

اسرائیل: بیٹے کا ختنہ کروانے سے انکار پر ماں کو جرمانہ

امریکا: ختنوں کے فوائد تسلیم

خیبرپختونخوا میں خواتین پر تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا، رپورٹ