’ہر ملک میں میڈیا ہے، بھارت میں کامیڈیا ہے‘
جب ہم نے فیس بک پر پوسٹ لگائی ’ہر ملک میں میڈیا ہے، بھارت میں کامیڈیا ہے‘ تو احباب نے سمجھا کہ ہم بھارتی میڈیا کا مذاق اڑا رہے ہیں حالانکہ ہم بس یہ کہنا چاہتے تھے کہ بھارت میں خبری چینلز کی دنیا بولی وڈ کی طرح ایک تفریحی صنعت بن چکی ہے جہاں کہانی، ایکشن، ایڈوینچر سمیت وہ سب کچھ ہوتا ہے جو ایک فلم کے لیے درکار ہے۔
ان عناصر میں رومانس بھی شامل ہے مگر وہ صرف نریندر مودی کے لیے مخصوص ہے، اسی طرح اس میڈیا کی کامیڈی بس ہم پاکستانیوں کے لیے مختص ہے۔ دراصل ہمارے مسائل اور المیوں کا احساس کرتے ہوئے ہمسائے کے ٹی وی چینلز نے ٹھانی کہ ’روتے ہوئے بچے کو ہنسایا جائے‘، اور میڈیا سے کامیڈیا بن گیا۔ پھر اتنا ہنسایا کہ ان کا ہر ٹی وی اینکر جونی لیور بن گیا۔ آپ ہی بتائیے اس دور میں کون پڑوسیوں کا اتنا خیال رکھتا ہے، ہمارے بزرگ جانتے تھے کہ دنیا میں بھارتیوں سے اچھا کوئی پڑوسی نہیں، اسی لیے تو انہوں نے فیصلہ کیا تھا کہ حضور! ہمیں ساتھ نہ رکھیے، پڑوسی بنالیں۔
جیسا کہ ہم نے بتایا کہ بھارتی میڈیا نرا فلمی ہے سو اس نے فلموں کی تقلید میں دوہرا کردار یا ڈبل رول نبھایا اور کیا خوب نبھایا۔ یہ ہمارے لیے کامیڈیا تھا تو بھارتیوں کے لیے ویکی پیڈیا! اس کا تیسرا کردار ’مودیا‘ دونوں کرداروں میں جھلکتا رہا۔ ادھر یہ کامیڈیا بنا ہمیں ہنسا رہا تھا تو ادھر ویکی پیڈیا بنا بتارہا تھا کہ لاہور میں بندرگاہ ہے جس پر دیش کی سینا نے ہلہ بول دیا ہے۔
یہ انکشاف ہمیں دنگ کرگیا ہم سوچنے لگے کہ لاہور میں سمندر ہے اور لاہوریوں نے کبھی بتایا بھی نہیں! سوچا چھپا کر رکھا ہوگا کہ کراچی والا ختم ہوجائے پھر استعمال میں لائیں گے۔ ہم نے ایک لاہوری دوست کو فون کرکے استفسار کیا، وہ پہلے حیران ہوئے پھر بولے، ’ہوسکتا ہے میاں نواز شریف نے چُپکے سے ’بنوا دیا‘ ہو، وہ بڑے بڑے منصوبے بنانے کے عادی ہیں‘۔
لاہور کے ایک اور دوست سے پوچھا، وہ بھی حیران ہوکربولے، ’سمندڑ اِدھڑ۔۔۔لہوڑ میں؟‘ چند لمحات بعد کچھ سوچ کر گویا ہوئے، ’ہاں ہاں یاد آیا، خان نے بنوایا تھا پھر جب ان کی حکومت کے خلاف امریکی سازش ہوئی تو انہوں نے ڈھکوادیا تھا تاکہ سمندر میں گندی مچھلیاں نہ آجائیں‘۔
ابھی ہم انہیں سوچوں اور لاہوری سمندر میں ڈوبے ہوئے تھے کہ ایک بھارتی ٹی وی چینل سے خبر ملی کہ بھارتی سینا نے آدھا کراچی تباہ کردیا ہے۔ اب ہماری سمجھ میں آیا کہ لاہور میں سمندر کیسے ’پھوٹ پڑا‘۔
ہم نے خیال آرائی کی اور خود کو بتایا ہوا یہ کہ آدھا کراچی تباہ ہوتے دیکھ کر سمندر بے چارہ سہم گیا۔ کلفٹن کے ساحل پر مٹرگشت کرتے ایک اونٹ نے گردن اونچی کرکے شہر کی حالت دیکھی پھر سمندر سے کہا، ’حالات ٹھیک نہیں ہیں، میں تو کہوں میاں! نکل لو‘۔
سمندر نے پنجاب میں ترقی کی نوید سناتے اخباری ضمیمے پڑھ رکھے تھے تو سوچ لیا، ’میں پنجاب جاؤں گا‘۔ بس اُچھل کر نکلا اور دوڑتا بھاگتا لاہور جاپہنچا۔ پہنچتے ہی لاہوریوں سے بولا، ’بھیا! ہم سمندر ہیں، کرانچی سے آئے ہیں، اور خدارا کسی غلط فہمی کا شکار مت ہوجائیے گا، ہم کرانچی والے ضرور ہیں مگر ’تیرا میرا ساتھی ہے لہراتا سمندر‘ کے نغمے والے سمندر ہیں، ’مظلوموں کا ساتھی ہے‘ کے 7 سمندر پار والے صاحب سے ہمارا کوئی تعلق نہیں‘۔
لاہوریوں نے ’او کوئی نئیں‘ کہہ کر اسے تسلی دی، پھجے کے پائے کھلائے، لسی پلائی، پھر ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے بولے، ’او راوی اے، جا اودے نال لما پے جا‘۔ اور سمندر ابھی ’لما پیا‘ ہی تھا کہ مریم نواز نے شہباز اسپیڈ سے کام لیتے ہوئے اس کے کنارے بندرگاہ کے سارے لوازمات مہیا کردیے۔
ابھی بندرگاہ تیار ہوئی تھی کہ بھارتیوں کو خبر مل گئی۔ بس پھر کیا تھا جیسا آپ بولی وڈ کی فلموں میں دیکھتے ہیں اور بس انہیں میں دیکھتے ہیں اور انہیں میں دیکھتے رہیں گے۔ بھارتی سینک ٹہلتے ہوئے آئے، لاہور پر ’کبجا‘ کیا اور بندرگاہ تباہ کرکے بھڑکتی آگ کی طرف پیٹھ کیے سینہ تانے دھیرے دھیرے بیک گراؤنڈ میوزک سے قدم ملاتے چل دیے۔
اس خیال آرائی نے لاہور میں بندرگاہ ہونے کا مسئلہ تو حل کردیا لیکن ہمیں لاہور اور کراچی پر ’کبجے‘ اور شہرِقائد کی تباہی کی فکر ہوئی۔ جستجو کی تو پتا چلا کراچی میں زندگی رواں دواں ہے اور لاہور بھی پوری شان سے دھڑک رہا ہے۔ اب سوال یہ تھا کہ بھارتی اینکرز کی تنخواہیں اتنی کم کیوں ہیں؟ آپ موضوع اور سوال میں ربط ڈھونڈ رہے ہوں گے، ابھی جوڑے دیتے ہیں۔
بھئی کم پیسوں میں تو بے چارے سستی ہی پی سکتے ہیں ناں! یہ بھی ممکن ہے کہ مالی مسئلہ نہ ہو دیش بھگتی کی وجہ سے سستی دیسی پیتے ہوں جس کا خمیازہ دیش نے بھگتا گویا سبق ملا کہ کبھی کبھی دیش بھگتی ’دیش بُھگتا‘ بن جایا کرتی ہے۔
ایک اور امکان بھی ہے۔ ہمیں لگتا ہے بھارتی صحافت تجزیے، معروضیت اور خبررسانی کی حدود سے نکل کر فکشن اور شاعری کی سرحدوں میں داخل ہوئی اور اب ان اصناف ادب کو بھی پیچھے چھوڑ کر ایک نئی صنف بن چکی ہے، ’صنف نہ رُک‘ یعنی کسی اصول، قدر اور ضابطے پر نہ رکنے والی۔
اس صنف ہی کا کمال ہے کہ بھارتی ٹی وی چینلز پر ہمارے سامنے اینکر نہیں ’بھیئنکر‘ ہوتے ہیں۔ ان کی گفتگو سے الفاظ اور حرکات وسکنات تک سب اتنا بھیانک ہوتا ہے کہ اس سب کے ساتھ اچانک سامنے آجائیں تو زمانے کی سانس رک جائے۔ بات یہ ہے کہ اس صنف میں صحافت کے ذریعے عوام کی تربیت پر کچھ زیادہ ہی زور دیا جاتا ہے، اتنا کہ جن کی اچھی تربیت ہوئی ہو وہ بھارتی صحافت سے دور ہی رہتے ہیں۔
دراصل بھارتی صحافت نے یہ سبق برصغیر کے ان والدین سے سیکھا ہے جو ڈر کو اولاد کی تربیت کے لیے لازمی سمجھے ہیں۔ بھارتی برقی میڈیا بھی اپنے ناظرین کو اولاد سمجھ کر اسے ڈرانا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ یہ الگ بات کہ اس چکر میں وہ اولاد وہ اپنا بیانیہ اس قدر لاد دیتا ہے کہ اولاد کی کمر ایسی جھکتی ہے کہ وہ سامنے کا منظر بھی نہیں دیکھ پاتی۔
’صنف نہ رک‘ کے فن کار یہیں نہیں رکتے بلکہ وہ کہیں پر نہیں رکتے۔ وہ اپنے فن اور تخیل کو کام میں لاتے ہوئے خبر جنم دیتے ہیں۔ یہ جو ان کے چہروں پر ہیجان، باتوں میں خلجان اور لفظوں میں سونامی طوفان ہوتا ہے، وہ اسی شوق ولادت کا بھگتان ہوتا ہے۔
حال ہی میں دردِولادت سہہ کر جو پیداوار حاصل ہوئی وہ ’کراچی تباہ ہوگیا، لاہور پر قبضہ ہوگیا، اسلام آباد فتح ہوگیا، پاکستانی سپاہ سالار کی برطرفی‘ کے عنوانات سے سامنے آئی۔
بھارتی ناظرین زچہ، بچہ اور مودی چچا پر صدقے واری ہوگئے لیکن اگلے دن پتا چلا بچے نہیں پتھری تھی جو عقل پر پڑے پتھروں سے وجود میں آئی، پیٹ میں سمائی پھر منہ کے راستے ہوئی اس کی منہ دکھائی، ایسی کہ بھارتی کامیڈیا اور صنف نہ رک کے فنکار منہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔
عثمان جامعی شاعر، قلم کار، مزاح نگار، بلاگر، صحافی ہیں۔ آپ کی تین کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جن میں فکاہیہ مضامین کا مجموعہ ’کہے بغیر‘، شعری مجموعہ ’میں بس ایک دیوار‘ اور کراچی کے حوالے سے ناول ’سرسید، سینتالیس، سیکٹرانچارج‘ شامل ہیں۔ آپ اس وقت ایک اخبار میں بطور ’سنڈے میگزین‘ انچارج ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔
