پاکستان

پنجاب: پی ڈی ایم اے کی حکومت سے سولر پینلز کی تنصیبات کیلئے قواعد و ضوابط جاری کرنے کی درخواست

حالیہ بارش میں کل اموات میں سے 70 فیصد خراب طریقے سے نصب شدہ سولر پینلز یا تیز ہواؤں کی وجہ سے شمسی توانائی کے ڈھانچے گرنے کی وجہ سے ہوئیں، صوبائی ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی پنجاب

صوبائی ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) پنجاب نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ سولر پینلز کی مناسب تنصیب کے لیے قواعد و ضوابط جاری کیے جائیں۔

واضح رہے کہ یہ پیش رفت ہفتہ کو پنجاب کے کئی علاقوں میں ہونے والی شدید بارشوں کے بعد سامنے آئی ہے، جس کے نتیجے میں متعدد اموات رپورٹ ہوئیں، شدید موسم کے باعث پنجاب اور خیبرپختونخوا میں کم از کم 19 افراد جاں بحق اور 90 سے زائد زخمی ہوئے تھے جبکہ سولر پینلز اور بل بورڈ گرنے کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے تھے۔

ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) پی ڈی ایم اے عرفان علی کاٹھیا نے محکمہ توانائی، محکمہ لوکل گورنمنٹ اور صوبے بھر کے کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کو الگ الگ خط لکھے۔

خطوط میں کہا گیا ہے کہ کل اموات میں سے 70 فیصد خراب طریقے سے نصب شدہ سولر پینلز/سولر انرجی سسٹم یا تیز ہواؤں کی وجہ سے شمسی توانائی سے متعلق ڈھانچے کے گرنے کی وجہ سے ہوئیں۔

مزید کہا گیا ہے کہ اس بات کو یقینی بنانے کی فوری ضرورت ہے کہ تمام سولر پینلز کی تنصیبات تکنیکی طور پر صحیح طریقے سے کی جائیں۔

پی ڈی ایم اے نے کہا کہ سولر کی تنصیبات مناسب طریقے سے ڈیزائن، ساختی طور پر محفوظ اور متعلقہ حکام کی طرف سے منظور شدہ ہونا چاہئیں، جس میں تصدیق شدہ مواد اور بڑھتے ہوئے آلات کے استعمال کے ساتھ ساتھ انجینئرنگ کے تسلیم شدہ معیارات پر عمل کرنے پر زور دیا جائے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ موجودہ تنصیبات کا بھی مکمل جائزہ لیا جانا چاہیے، جہاں ضروری ہو فوری اصلاحی اقدامات کیے جائیں۔

اتھارٹی نے کسی بھی خطرناک سولر انفرااسٹرکچر کے سروے اور اس طرح کے معاملات کو حل کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ بروقت کارروائی سے زندگیوں، عوامی انفرااسٹرکچر کی حفاظت اور پنجاب میں شمسی توانائی کے اقدامات کی طویل مدتی کامیابی میں مدد ملے گی۔

واضح رہے کہ برطانوی توانائی تھنک ٹینک ’ایمبر‘ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان سولر پینلز درآمد کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک بن گیا، 2024 میں پاکستان نے دنیا کے دیگر ممالک کی نسبت سب سے زیادہ 70 گیگا واٹ سولر پینلز درآمد کیے تھے۔

ڈان نیوز کے مطابق ایمبر کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ حیران کن بات یہ ہے کہ یہ کسی عالمی سرمایہ کاری، قومی پروگرام یا بڑے پیمانے پر منظم منصوبے کے تحت نہیں بلکہ صارفین کی ذاتی کوششوں سے ممکن ہوا تھا۔