پاکستان

قائمہ کمیٹی کا گنے کی پیداوار سے متعلق اعدادوشمار پر شکوک کا اظہار

یہ اعداد و شمار شوگر ملوں سے حاصل کیے گئے ہیں جو ٹیکس سے بچنے کی غرض سے پیداواری اعداد و شمار کو کم رپورٹ کرتی ہیں، جس سے ان دعووں کی سچائی پر شکوک پیدا ہوتے ہیں، کمیٹی کی نشاندہی

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قومی غذائی تحفظ و تحقیق نے قومی غذائی تحفظ کو بہتر بنانے میں زرعی تحقیق کے اثرات کا جائزہ لیا، اور فصلوں کی پیداواری صلاحیت میں رپورٹ شدہ فوائد کی صداقت پر تشویش ظاہر کی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق قائمہ کمیٹی کا اجلاس چیئرمین سید طارق حسین کی صدارت میں ہوا جس میں زرعی یونیورسٹی فیصل آباد (یو اے ایف) کے وائس چانسلر نے تفصیلی بریفنگ دی۔

انہوں نے بتایا کہ مستقبل کے منصوبے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے، آبی وسائل کے بہتر انتظام، میکانائزیشن کے فروغ اور وسائل کے مؤثر استعمال پر مرکوز ہوں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بیج کی ترقی، عوام میں شعور بیدار کرنا، تعلیم، اور مصنوعی ذہانت سے چلنے والے موسمیاتی اسمارٹ ماڈلز کو اپنانا ترجیحی اہداف میں شامل ہیں۔ وائس چانسلر نے تحقیق میں نمایاں کامیابیوں پر روشنی ڈالی، جن میں سبزیوں کی افزائش کے لیے ’یو اے ایف-11‘ (براسیکا کی اعلیٰ پیداوار دینے والی قسم) اور ’اوکرا-3اے‘ شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سویا بین، مکئی کے ہائبرڈز، آم، لیموں کے پھلوں اور جینیاتی طور پر ترمیم شدہ گنے میں ہونے والی پیش رفت سے فصل کی پیداوار، معیار اور لچک میں بہتری آئی ہے جو قومی غذائی تحفظ اور زرعی ترقی کے لیے یونیورسٹی کے عزم کو ظاہر کرتا ہے۔

تاہم کمیٹی نے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے تحت پیش کیے گئے گنے کی پیداوار کے اعداد و شمار پر تشویش کا اظہار کیا، جن میں دعویٰ کیا گیا کہ پانچ سالوں میں فی ایکڑ گنے کی پیداوار میں 600 سے 700 من کا اضافہ ہوا ہے۔

کمیٹی نے نشاندہی کی کہ یہ اعداد و شمار شوگر ملوں سے حاصل کیے گئے ہیں جو ٹیکس سے بچنے کی غرض سے پیداواری اعداد و شمار کو کم رپورٹ کرتی ہیں، جس سے ان دعووں کی سچائی پر شکوک پیدا ہوتے ہیں۔ کمیٹی نے اس بات پر بھی تنقید کی کہ اربوں روپے کی سرمایہ کاری کے باوجود اس قدر معمولی بہتری ’وسائل اور وقت کا ناکافی فائدہ‘ ظاہر کرتی ہے۔

وائس چانسلر نے زرعی شعبے کو درپیش چیلنجز کی نشاندہی بھی کی جن میں پالیسی میں عدم ہم آہنگی، سیکیورٹی کے مسائل، پانی کی قلت، بجٹ کی محدودیت، اور وزارت و اس کے ذیلی اداروں کے درمیان ناکافی ربط شامل ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ تزویراتی زرعی منصوبوں میں پانی اور زمین کا انتظام، جدید ٹیکنالوجی، زرعی معلومات، لائیو اسٹاک، دیہی مرغ بانی، اندرون ملک ماہی گیری، دیہی ترقی، زرعی جنگلات، مانیٹرنگ و تشخیص، زرعی تحقیق، اور مارکیٹ پر مبنی صنعتوں کا فروغ شامل ہیں۔

زرعی یونیورسٹی، ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی پی) کے ساتھ ڈی اے پی کھاد کی پیداوار، درآمدی متبادل، اور درست زراعت کے شعبوں میں تعاون کر رہی ہے۔ ان کوششوں میں مصنوعی ذہانت، شمسی توانائی، موسمیاتی اثرات میں کمی اور زرعی توسیع کی ڈیجیٹلائزیشن شامل ہے۔

یونیورسٹی اس وقت 135 اشتراکی منصوبوں پر کام کر رہی ہے جن میں سے 84 بین الاقوامی اور 51 قومی ہیں، جو اس کے آؤٹ ریچ پروگرامز جیسے کہ ڈی-8 اور او آئی سی کے رکن ممالک کے لیے چینی زبان کی تربیت کی بھی حمایت کرتے ہیں۔

جدید لیبارٹریز کا قیام

مزید برآں، پی ایس ڈی پی اور اے ڈی بی کی مالی مدد سے بیج کی جانچ اور سرٹیفکیشن کے لیے جدید لیبارٹریز قائم کی جارہی ہیں، تاکہ بین الاقوامی برآمدی معیارات پر پورا اترا جاسکے۔ وائس چانسلر کے مطابق، زرعی تحقیق کو مزید فروغ دینے کے لیے مصنوعی ذہانت، ڈرونز اور سینسر جیسی جدید ٹیکنالوجیز بھی شامل کی جارہی ہیں۔

انہوں نے جینیات، بیج اور نسل کی بہتری، زرعی طریقوں، زرعی ٹیکنالوجی، اور قدر میں اضافے جیسے اہم شعبوں پر بھی زور دیا۔

ہائبرڈ ٹیکنالوجی کو فصل کی پیداوار میں اضافے کے لیے کلیدی عنصر قرار دیا گیا، جبکہ کم ان پٹ پر مبنی ڈورم گندم کی اقسام کی تیاری پر خاص توجہ دی جارہی ہے۔

چیئرمین کمیٹی سید طارق حسین نے فصلوں کے لائف سائیکل کو مختصر کرنے پر زور دیا تاکہ پانی اور کیڑے مار ادویات جیسے وسائل کے استعمال میں کمی آئے اور کسانوں کا بوجھ بھی کم ہو۔

کراچی والوں پر نیا بوجھ، کے الیکٹرک کو ریکوری لاسز بلوں میں وصول کرنے کی اجازت مل گئی

اسٹیٹ بینک نے زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم کرنے کیلئے کرنسی مارکیٹ سے 6 ارب ڈالر خرید لیے

کراچی: غیر قانونی کرنسی ایکسچینج چلانے والا بینک منیجر اور ساتھی گرفتار