’صدر نے اختیارات سے تجاوز کیا‘، امریکی عدالت کا ٹرمپ کے عائد کردہ ٹیرف روکنے کا حکم
امریکی وفاقی عدالت نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے لگائے گئے وسیع ٹیرف کو روک دیا ہے جو اُن کی معاشی پالیسیوں کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔
بی بی سی نیوز کی رپورٹ کے مطابق امریکی تجارتی عدالت کے 3 ججز نے فیصلہ دیا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہنگامی قانون کا استعمال کرتے ہوئے جب تقریباً تمام ممالک پر ٹیرف عائد کیے تو انہوں نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا۔
تجارتی ماہرین اور کاروباری ادارے اس نئے موڑ کے اثرات کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
فیصلے کے فوراً بعد ٹرمپ انتظامیہ نے اپیل دائر کی اور کہا کہ یہ غیر منتخب ججز کا کام نہیں کہ وہ قومی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے صحیح طریقے کا فیصلہ کریں۔
امریکا اس وقت درجنوں ممالک کے ساتھ انفرادی تجارتی معاہدوں پر بات چیت کر رہا ہے، اور اب یہ بات چیت شدید الجھن کا شکار ہو گئی ہے۔
ٹرمپ کیوں ٹیرف لگانا چاہتے ہیں؟
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ امریکا میں داخل ہونے والی اشیا پر ٹیرف (محصولات) بڑھا کر وہ مقامی مینوفیکچرنگ کو فروغ دے سکتے ہیں، امریکی صارفین کو زیادہ امریکی ساختہ اشیا خریدنے کی ترغیب دے سکتے ہیں۔
ان کا خیال ہے کہ اس اقدام سے وہ ٹیکس آمدنی میں اضافہ کر سکتے ہیں، اور ان کے بقول دیگر ممالک کی غیر منصفانہ تجارتی پالیسیوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔
امریکا کا ایک تجارتی خسارہ ہے، یعنی وہ جتنا فروخت کرتا ہے اس سے زیادہ خریدتا ہے اور ٹرمپ طویل عرصے سے یہ مؤقف رکھتے ہیں کہ یہ صورتحال ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔
تاہم، ٹرمپ کے ٹیرف کے اثرات سے متعلق کئی دعوے چیلنج کیے گئے ہیں اور ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ چونکہ ٹیرف ایک اضافی ٹیکس ہوتا ہے، اس لیے یہ امریکی صارفین کے لیے اشیا کی قیمتوں میں اضافہ کرے گا۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ ٹیرف ایک سودے بازی کی حکمت عملی ہو سکتی ہے اور محض ان کی دھمکی دینا بھی کافی ہو سکتا ہے تاکہ دیگر ممالک امریکا سے تجارتی یا دیگر رعایتیں دے دیں تاکہ وہ ان ٹیرف سے بچ سکیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ اگرچہ ٹیرف امریکی درآمد کنندہ ادا کرتا ہے، لیکن قیمت میں اضافے کی وجہ سے ممکن ہے کہ کم اشیا فروخت ہوں، جو آخرکار امریکی مارکیٹ میں اشیا بیچنے والوں کے لیے نقصان دہ ہو گا۔
اب عدالت کے اس فیصلے نے ٹرمپ کی حکمت عملی کو غیر یقینی صورتحال سے دوچار کر دیا ہے۔
ایشیائی اور یورپی مارکیٹوں میں تیزی، ڈالر کی قدر بڑھ گئی
امریکی عدالت کے فیصلے کے بعد ایشیائی اور یورپی مارکیٹوں میں تیزی متوقع ہے، ڈالر کی قدر میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
لندن میں مارکیٹس کھلنے والی ہیں، امریکا میں ہونے والے واقعات پر ایشیائی منڈیوں نے مثبت ردعمل دیا ہے۔
جاپان میں نکی 225 انڈیکس میں 1.9 فیصد اضافہ ہوا، جب کہ ہانگ کانگ کا ہینگ سینگ انڈیکس 1.1 فیصد اوپر چلاگیا، اسی طرح جنوبی کوریا کا کوسپی انڈیکس بھی 1.8 فیصد بڑھا۔
یورپ میں مارکیٹس مثبت رجحان کے ساتھ کھلنے کے لیے تیار ہیں۔
سی جی ایسیٹ مینجمنٹ کی پورٹ فولیو منیجر ایما موریارٹی نے بی بی سی ریڈیو 4 کے پروگرام ’ٹوڈے‘ میں بتایا کہ یہ ایک غیر یقینی تجارتی دور رہا ہے، لیکن اس خبر نے خاص طور پر امریکی اثاثوں کی طرف سے مالیاتی منڈیوں کے جذبات کو بہتر کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ڈالر مضبوط ہو رہا ہے اور بڑے امریکی انڈیکسز کے فیوچر کنٹریکٹس میں اضافہ ہو رہا ہے، جس کی قیادت ایشیائی منڈیاں کر رہی ہیں۔
شراب درآمد کرنیوالی کمپنی اور سائیکلنگ اسٹور کا مقدمہ
صدر ٹرمپ کی جانب سے عائد کردہ محصولات کے خلاف یہ تازہ ترین قانونی چیلنج امریکا کی کچھ کاروباری کمپنیوں کی طرف سے آیا تھا، جن کی قیادت نیویارک میں قائم خاندانی ملکیت والی شراب درآمد کرنے والی کمپنی VOS Selections کر رہی ہے۔
نیویارک کی اس کمپنی نے کہا کہ یہ محصولات نہ صرف ہمارے کاروبار کو خطرے میں ڈالتی ہیں بلکہ ان خاندانی کسانوں کے روزگار کو بھی جن کی ہم نمائندگی کرتے ہیں۔
دیگر کاروباروں میں جو اس قانونی چیلنج میں شامل ہیں، ان میں ورمونٹ میں قائم ایک آن لائن سائیکلنگ اسٹور اور ورجینیا کے شہر شارلٹس ول میں واقع الیکٹرانکس تیار کرنے والا چھوٹا ادارہ شامل ہے۔
برطانیہ نے ٹیرف ڈرامے پر چپ سادھ لی
برطانوی حکومت نے ٹرمپ کے نئے ٹیرف تنازع پر چپ سادھ رکھی ہے، جو وائٹ ہاؤس میں صدر کے پہلے کچھ ہنگامہ خیز مہینوں کے دوران معمول کی حکمت عملی رہی ہے۔
10 ڈاؤننگ اسٹریٹ کے سینئر عہدیدار کا کہنا ہے کہ ہمیں اس سب میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔
کیئر اسٹارمر پہلے ہی اس مہینے کے آغاز میں ٹرمپ کے ساتھ ایک معاہدہ کر کے برطانیہ کو کچھ امریکی ٹیرف سے ریلیف دلانے میں کامیاب ہو چکے ہیں، جس کے تحت مخصوص برطانوی کاروں پر درآمدی ٹیکس کم کیے جائیں گے، اور کچھ اسٹیل اور ایلومینیم کو ٹیرف فری امریکا میں داخلے کی اجازت دی جائے گی۔
تاہم، یہ معاہدہ ابھی تک نافذ نہیں ہوا ہے اور کار ساز ادارے اور اسٹیل کمپنیاں واضح معلومات کے منتظر ہیں کہ وہ کب اس معاہدے سے فائدہ اٹھا سکیں گی۔
برطانوی حکومت کا کہنا ہے کہ ہم کام کر رہے ہیں تاکہ کاروبار جلد از جلد اس معاہدے سے فائدہ اٹھا سکیں، اور آئندہ اقدامات جلد ہی واضح کر دیے جائیں گے۔