دنیا

غزہ: امدادی مرکز کے قریب اسرائیلی حملوں میں 58 فلسطینی شہید

جان بوجھ کر شہریوں کیلئے خوراک یا دیگر بنیادی اشیا کی رسائی روکنا ’ممکنہ طور پر جنگی جرم‘ کے زمرے میں آتا ہے، ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق اقوام متحدہ

غزہ میں امدادی مرکز کے قریب اسرائیلی فوج کے حملوں کے نتیجے میں اب تک 58 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔

قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کے مطابق طبی ذرائع نے بتایا ہے کہ غزہ بھر میں اسرائیلی حملوں میں کم از کم 58 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔

جنوبی غزہ کے خان یونس میں واقع ناصر ہسپتال میں آج شہید ہونے والے 35 افراد کی لاشیں لائی گئیں، جن میں سے 27 وہ افراد تھے جنہیں رفح گورنری میں امداد کے حصول کے دوران گولیاں مار کر شہید کیا گیا۔

مرکزی غزہ کے دیر البلح میں واقع الاقصیٰ شہدا ہسپتال میں 6 لاشیں لائی گئیں جب کہ غزہ شہر میں الشفا ہسپتال کو 14 لاشیں موصول ہوئیں جب کہ 3 مزید لاشیں العربی اہلی ہسپتال منتقل کی گئیں۔

ناصر ہسپتال کے طبی ذرائع نے الجزیرہ کو بتایا کہ ایک اسرائیلی ڈرون حملے میں جنوبی غزہ کے خان یونس کے علاقے جورا میں کم از کم 4 فلسطینی شہید ہوئے۔

مرکزی غزہ کے دیر البلح میں ایک علیحدہ اسرائیلی حملے میں 3 فلسطینی شہید اور متعدد زخمی ہوئے۔

’شہریوں کو خوراک سے روکنا بھی جنگی جنون کے زمرے میں آتا ہے‘

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے دفتر کے ترجمان جیریمی لارنس نے غزہ میں امریکا کی حمایت یافتہ امدادی مقامات کے قریب 100 سے زائد فلسطینیوں کے قتل پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

لارنس نے الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ کوئی شخص کس قدر بھوک سے مجبور ہو کہ وہ طویل فاصلہ طے کر کے خوراک کے لیے جا رہا ہو، اور اسے یہ خوف ہو کہ اسے گولی مار دی جائے گی یا وہ خالی ہاتھ واپس آئے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ قحط کے خطرے سے دوچار ہیں، شہریوں کو نشانہ بنانا ’بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزی‘ ہے، یہ جنگی جرم ہے جب کہ جان بوجھ کر شہریوں کے لیے خوراک یا دیگر بنیادی اشیا کی رسائی روکنا بھی ’ممکنہ طور پر جنگی جرم‘ کے زمرے میں آتا ہے۔

’غزہ میں بچوں نے جو دیکھا، وہ بھلا نہیں سکتے‘

سیو دی چلڈرن کی غزہ میں امدادی کارروائیوں کی ڈائریکٹر جارجیا ٹیسی نے الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ امدادی کارکنوں کو ’بندھے ہوئے ہاتھوں‘ کے ساتھ کام کرنا پڑ رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ہم صرف کچھ بنیادی خدمات فراہم کر رہے ہیں، جب کہ ہم معمول کی امداد جیسے خوراک، صفائی کے کٹس کی فراہمی بھی نہیں کر پا رہے کیونکہ ہمارے گودام خالی ہیں اور ہمارا سارا سامان ہزاروں ٹرکوں میں سرحد پر پھنسا ہوا ہے۔

جارجیا ٹیسی نے کہا کہ یہاں غصے، مایوسی اور بے بسی کے جذبات کی ایک لہر سی چل رہی ہے، میں اس شعبے میں 20 سال سے کام کر رہی ہوں، مگر ایسا منظر پہلے کبھی نہیں دیکھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ نظام ناکامی کے لیے ہی بنایا گیا ہے، ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ سرحدیں کھولی جائیں اور ہمیں اپنا کام کرنے دیا جائے جب کہ بچے وہ سب کچھ بھلا نہیں سکتے جو انہوں نے دیکھ لیا ہے۔