دنیا

مسئلہ کشمیر پر ڈونلڈ ٹرمپ اپنا وعدہ پورا کریں گے، بلاول بھٹو

برتری کے باوجود پاکستا نے جنگ بندی پر اس شرط پر اتفاق کیا کہ مستقبل میں تمام کشیدگی کے نکات پر ایک غیر جانبدار مقام پر مزید بات چیت ہوگی، لندن میں صحافیوں سے بات چیت

چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستانی سفارتی مشن کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نےکہا ہے کہ جنگ میں برتری کے باوجود ہم نے جنگ بندی پر اس شرط پر اتفاق کیا کہ مستقبل میں تمام کشیدگی کے نکات پر ایک غیر جانبدار مقام پر مزید بات چیت ہوگی۔

سابق وزیرخارجہ بلاول بھٹو نے سفارتی وفد کے اراکین کے ہمراہ لندن پہنچنے پر ان خیالات کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا، وفد میں حنا ربانی کھر ، خرم دستگیر ، سینیٹرز شیری رحمان، مصدق ملک، فیصل سبزواری اور بشریٰ انجم بٹ بھی وفد کا حصہ ہیں، ان کے ساتھ سینئر سفیر جلیل عباس جیلانی اور تہمینہ جنجوعہ بھی ہیں۔

اس ماہ کے اوائل میں، پاکستان نے بھارت کے ساتھ حالیہ تنازعہ پر اپنا نقطہ نظر دنیا کے سامنے پیش کرنے اور نئی دہلی کے غیر ثابت شدہ الزامات کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک وسیع البنیاد سفارتی مہم شروع کی تھی، اپنی عالمی رسائی کی مہم کے حصے کے طور پر، وفد نے امریکہ کا دورہ کیا ہے، اور اس وقت لندن میں ہے، اور پھر برسلز بھی جائے گی۔

بلاول بھٹو نے لندن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارت سے جنگ کے دوران ہمیں برتری حاصل رہی، اس برتری کے باوجود، ہم نے جنگ بندی پر اس شرط پر اتفاق کیا کہ مستقبل میں تمام کشیدگی کے نکات پر ایک غیر جانبدار مقام پر مزید بات چیت ہوگی۔

امریکا کی ثالثی میں جنگ بندی کے بعد کشمیر تنازعہ جلد حل ہونے کے بارے میں پوچھے جانے پر، بلاول نے امید ظاہر کی کہ ’ ڈونلڈ ٹرمپ یا ان کی حکومت اپنا وعدہ پورا کرے گی’ کیونکہ تنازعہ کے دوران پاکستان کی دفاعی پوزیشن بھارت سے بہتر تھی۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ بین الاقوامی سطح پر، چاہے وہ امریکا ہو یا برطانیہ، وہ سب اپنا کردار ادا کریں گے اور بھارت کو بات چیت کے ذریعے ہمارے مسائل حل کرنے پر راضی کریں گے۔

سابق وزیر خارجہ نے زور دیا کہ پاکستان نے 6 بھارتی جیٹ طیارے مار گرا کر اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے اور اب امن قائم کرنے کی ضرورت ہے، انہوں نے کہا کہ وہ چھ طیارے وہی تھے جنہوں نے اپنا پے لوڈ گرایا تھا، جس کے نتیجے میں شہریوں کی شہادتیں ہوئی تھیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ پورے تنازعہ کے دوران پاکستان کو ایک معقول اور ذمہ دار ریاست کے طور پر دیکھا گیا۔

دریں اثنا، بلاول کی قیادت میں وفد، جو ایک روز قبل لندن پہنچا تھا، نے آج چیتھم ہاؤس میں برطانوی تھنک ٹینک، تعلیمی اور پالیسی ساز کمیونٹی کے ممتاز اراکین کے ساتھ بھی ملاقات کی۔

لندن میں پاکستان ہائی کمیشن کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ بات چیت کے دوران وفد نے حالیہ کشیدگی پر پاکستان کا نقطہ نظر پیش کیا، جبکہ ’ بھارت کی بلااشتعال فوجی جارحیت پر شدید تشویش کا اظہار کیا جس کے نتیجے میں عام شہریوں کی شہادتیں ہوئیں اور علاقائی استحکام کو نمایاں خطرہ لاحق ہوا۔’

وفد نے زور دیا کہ بھارت کے اقدامات پاکستان کی خودمختاری، بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔

وفد نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ کشمیر تنازعہ کا زیر التوا حل’ خطے میں دیرپا امن و استحکام کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ’ بنا ہوا ہے اور بامعنی مذاکرات اور بین الاقوامی وعدوں کے احترام کی حمایت کے لیے عالمی اقدام کی اپیل کو دہرایا۔

بھارت کے یکطرفہ اور غیر قانونی طور پر سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کے اقدام کی مذمت کرتے ہوئے، بلاول نے خبردار کیا کہ پانی کو ہتھیار بنانا بین الاقوامی اصولوں کو کمزور کرتا ہے اور ایک خطرناک نظیر قائم کرتا ہے۔

بیان کے مطابق، انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ تشویشناک صورتحال کا نوٹس لے اور بھارت کو اس کے اقدامات کے لیے جوابدہ ٹھہرائے۔

وفد نے زور دے کر کہا کہ بھارت کو پاکستان کا جواب ملک کے اپنی خودمختاری کا دفاع کرنے اور خطے میں بھارت کے کسی بھی نئے نام نہاد ’معمول‘ کو قائم کرنے کے عزائم کو ناکام بنانے کے عزم کو ظاہر کرتا ہے۔

وفد کے علاوہ، برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر، ڈاکٹر محمد فیصل، بھی گول میز کانفرنس کے دوران موجود تھے۔

ڈاکٹر محمد فیصل نے ایکس پر بتایا کہ وفد نے برطانیہ کے مشرق وسطیٰ کے وزیر حامش فالکنر اور ان کی ٹیم سے وزارت خارجہ، دولت مشترکہ اور ترقیاتی دفتر (ایف سی ڈی او) میں بھی ملاقات کی۔

ڈاکٹر محمد فیصل کی ایک پوسٹ کے مطابق، بلاول نے انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار سٹریٹجک سٹڈیز کے اراکین کے ساتھ ایک بحث میں بھی شرکت کی، جس میں جنوبی اور وسطی ایشیا کے لیے اس کے ایسوسی ایٹ فیلو ڈیسمنڈ بوون بھی موجود تھے۔

ایک پریس ریلیز میں بتایا گیا تھا کہ برطانیہ میں، وفد برطانوی پارلیمنٹ کی سینئر قیادت سے ملاقاتیں کرنے والا ہے، جس میں پاکستان اور کشمیر پر آل پارٹیز پارلیمانی گروپس بھی شامل ہیں۔