اداریہ: ’بجٹ 2026 بتاتا ہے کہ معاشی استحکام لوٹ آیا ہے‘
گزشتہ روز آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کیا گیا جو کہ ستمبر میں ہونے والے آئی ایم ایف کے 7 ارب ڈالرز کے دوسرے جائزے کو کامیاب بنانے کی راہ ہموار کرنے کی ایک کوشش لگتی ہے۔
ایک بڑی تبدیلی یہ ہے کہ حکومت بجٹ کے مجموعی خسارے کو ملک کی کُل آمدنی (جی ڈی پی) کے 3.9 فیصد تک کم کرنا چاہتی ہے جو کہ پہلے ہدف 5.9 فیصد سے کم ہے۔ صوبے جن پر عام طور پر وفاقی حکومت کے مالی مسائل میں اضافہ کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے کیونکہ انہیں این ایف سی معاہدے کے تحت رقم کا بڑا حصہ ملتا ہے، اب وہ تقریباً 15 کھرب روپے کا کیش سرپلس فراہم کریں گے جو کہ گزشتہ مالی سال کے طے شدہ ہدف 10 کھرب روپے سے 50 فیصد زیادہ ہے تاکہ قومی خسارے کو کم کرنے میں مدد ملے۔
اگرچہ حکومت نے تنخواہ دار طبقے کو ٹیکس میں کچھ ریلیف بھی دیا ہے لیکن وہ ایسا کرسکتی تھی کیونکہ اس نے قرض کی ادائیگی میں 10 کھرب روپے کی بچت کی۔ یہ بچتیں اس لیے ہوئیں کیونکہ ملک میں شرحِ سود گزشتہ سال کم ہوئی ہے۔ ان بچتوں نے حکام کو ٹیکس میں رعایت کا مطالبہ کرنے والی طاقتور ریئل اسٹیٹ لابیوں کو ریلیف دینے کی بھی اجازت دی ہے۔
کہا جارہا ہے کہ یہ بجٹ ان لوگوں کے لیے مایوس کن ہے جو امید کر رہے تھے کہ گزشتہ ڈیڑھ سال میں آنے والا معاشی استحکام بڑی اور بامعنی اصلاحات کا باعث بنے گا تاکہ طویل مدت میں معیشت کی ترقی میں مدد ملے۔
اس بجٹ میں بڑی ساختی تبدیلیاں کی زیادہ امیدیں نہیں ہیں۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ بجٹ دستاویز میں کوئی مثبت بات نہیں۔ مثال کے طور پر یہ کسٹم اور درآمدی ٹیکس میں دیرینہ تبدیلیوں کی نوید سناتا ہے جو امید ہے کہ ان تبدیلیوں کا مقصد اگلے پانچ سالوں میں بعض صنعتوں کو حاصل استثنیٰ کو آہستہ آہستہ روکنا ہے جو حکومتی تعاون سے غیر منصفانہ فائدہ اٹھاتی ہیں۔
بجٹ میں نان فائلرز کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوشش کی گئی ہے اور ایسا ایک خاص رقم سے زائد شیئرز خریدنے یا 850 سی سی سے بڑے انجن والی کاریں خریدنے جیسی چیزوں پر حد لگا کر کیا گیا ہے جہاں ٹیکس نہ دینے پر نان فائلرز کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ بجٹ میں سابقہ فاٹا اور پاٹا کے علاقوں میں کاروبار کے لیے سیلز ٹیکس کی چھوٹ کو مرحلہ وار ختم کرنے کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں جن کا مقصد پورے ملک میں قوانین کو منصفانہ بنانا ہے۔
اگرچہ وفاقی وزیر خزانہ نے کمپلائنٹ کارپوریٹ سیکٹر کی مشکلات کے بارے میں بات کی لیکن ان کی بجٹ تقریر غیر مساوی کارپوریٹ ٹیکس کی شرح کے مسئلے کو حل کرنے میں ناکام رہی جو سرمایہ کاری اور برآمدات کی ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ اگرچہ متنازع سپر ٹیکس کو قدرے کم کر دیا گیا ہے لیکن بجٹ میں کاروبار کو زیادہ مسابقتی بننے یا غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے میں مدد کے لیے اہم اقدامات شامل نہیں ہیں۔
یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے کیونکہ صنعتیں جو کہ معیشت کا صرف 18 فیصد ہیں، تمام ٹیکسوں کا تقریباً 60 فیصد ادا کر رہی ہیں۔ اس بھاری ٹیکس کے بوجھ کی وجہ سے بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ کم ہورہی ہے۔
حکومت اپنے اڑان پروگرام کے تحت 5 سالوں میں برآمدات کو 100 ارب ڈالرز تک بڑھانا چاہتی ہے لیکن صنعتی پیداواری صلاحیت میں اضافہ اور ایف ڈی آئی کو راغب کیے بغیر اس ہدف کا حصول ممکن نہیں۔ بہت سے لوگ آئندہ سال کے 4.2 فیصد کے نمو کے ہدف کو حاصل کرنے کی حکومت کی صلاحیت کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے ہیں جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس نے معیشت کے گہرے مسائل کو حل کرنے کے لیے ناکافی کام کیا ہے۔ استحکام لوٹ آیا ہے۔ کیا ترقی بھی استحکام کے ساتھ آئے گی؟
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔