نقطہ نظر

’ایران-اسرائیل جنگ میں امریکا کی شمولیت، نہ ختم ہونے والی جنگ کا نقطہ آغاز ثابت ہوگی‘

یہ جنگ مشرقِ وسطیٰ کے سیاسی نقشے کو تبدیل کردے گی مگر نتیجہ امریکا کی منشا کے مطابق نہیں ہوگا۔

یہ وہ جنگ ہے جس کی منصوبہ بندی اسرائیل برسوں سے کررہا تھا۔ ٹرمپ انتطامیہ کی جانب سے گرین سگنل ملنے کے بعد صہیونی ریاست نے گزشتہ جمعے کو ایران کی جوہری و فوجی تنصیبات پر متعدد حملے کیے۔

ایران کی جانب سے بلاجواز جارحیت کا بھرپور جواب دیا گیا جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تنازع مکمل جنگ کی صورت اختیار کرگیا ہے جو پورے خطے یا اس سے باہر تک پھیل سکتا ہے۔ اسرائیل کی مدد کے لیے امریکا کی براہ راست جنگ میں شمولیت کے امکان نے حالات کو مزید غیرمستحکم کیا ہے۔

سوشل میڈیا پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ’تمام شہری فوری طور پر تہران خالی کردیں‘ کی دھمکی کے بعد امریکا کی جنگ میں شمولیت کے حوالے سے شکوک کافی حد تک واضح ہوچکے ہیں۔ ایک صدر جو جنگ مخالف ہونے کا دعویٰ کرتے تھے، امریکا کو ایک اور تباہ کن فوجی مہم جوئی کی جانب لے جا رہے ہیں جوکہ دنیا کو مزید افراتفری کی صورت حال میں دھکیل دے گا۔

ٹرمپ نے بہت پہلے ہی اپنی پوزیشن واضح کردی تھی کہ وہ امریکا کو دیگر ممالک کی جنگ میں نہیں جھونکیں گے۔ لیکن اب امریکا ایک ایسے تنازع میں شامل ہونے جارہا ہے جس کے نتائج کا وہ تعین نہیں کرسکتا۔

چند میڈیا رپورٹس کے مطابق، اسرائیلی رہنماؤں کے دباؤ پر واشنگٹن صہیونی ریاست کو 13 ہزار 600 کلوگرام ’بنکر بسٹنگ بم‘ فراہم کرنے کا فیصلہ کرسکتا ہے۔ اس سے اسرائیل کو زیرِزمین ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے میں مدد ملے گی لیکن اس سے ایران کو سر جھکانے پر مجبور کرنے کے اپنے مطلوبہ مقصد میں وہ کامیاب نہیں ہوگا۔ اس کے بجائے اس طرح کے کسی اقدام سے جوہری معاہدے پر ممکنہ مذاکرات کے تمام امکانات ختم ہوجائیں گے جس حوالے سے امریکی صدر کا دعویٰ تھا کہ وہ دلچسپی رکھتے ہیں۔

پیر کے روز انہوں نے سوشل میڈیا پوسٹ میں یہ کہا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ ایران بنیادی طور پر مذاکرات کی میز پر ہے، وہ معاہدہ کرنا چاہتے ہیں‘۔

ماہر تعلیم اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے سابق رکن ولی نصر نے کہا کہ یہ ’جنگی سفارتکاری‘ ہے۔ تاہم ایسا کوئی اشارہ موجود نہیں جو یہ بتائے کہ ایران جنگ کے سایے میں جوہری امن معاہدے پر رضامند ہوگا۔ درحقیقت اسرائیل کے حالیہ حملوں نے ایران اور ٹرمپ انتظامیہ کے درمیان جاری جوہری مذاکرات کو ناکام بنادیا ہے۔ بات چیت کے اگلے دور کے لیے دونوں ممالک کے وفد کے درمیان عمان میں ملاقات طے تھی۔ البتہ بات چیت کے گزشتہ دور میں کسی حد تک پیش رفت بھی ہوئی تھی۔

مذاکرات کے لیے طے شدہ شیڈول سے چند دن قبل اسرائیل کے ایران پر حملے نے بات چیت کے عمل کو سبوتاژ کیا۔ یہ 2018ء کے بعد سے امریکا اور ایران کے درمیان پہلی اعلیٰ سطح بات چیت تھی۔ اسی سال ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پہلے صدارتی دور میں ’بہتر ڈیل‘ کا وعدہ کرتے ہوئے 2015ء میں طے پائے جانے والے جوہری معاہدے کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایک جانب ایرانی وفد کی سربراہی وزیرخارجہ عباس عراقچی کررہے تھے وہیں امریکا کی نمائندگی ٹرمپ کے ایلچی اسٹیو ویٹکوف کررہے تھے۔ یہ حقیقت کہ دونوں فریقین نے دوبارہ ملاقات پر رضامندی ظاہر کی، دونوں فریقین کی سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔

لیکن اسرائیل کبھی بھی جوہری مذاکرات کے حق میں نہیں تھا جوکہ طویل عرصے سے ایران کی جوہری تنصیبات کو تباہ کرنے کے لیے امریکا پر فوجی کارروائی کے لیے دباؤ ڈالتا رہا ہے حالانکہ ایران کی جوہری سرگرمیوں پر بین الاقوامی جوہری نگران ادارے (آئی اے ای اے) کی سخت نظر رہی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ اسرائیل نے 2015ء معاہدے کی مخالفت کی جسے باضابطہ طور پر مشترکہ جامع پلان آف ایکشن کہا جاتا ہے۔ اس معاہدے پر ایران اور دنیا کی 6 طاقور ممالک نے دستخط کیے تھے جن میں امریکا، روس، جرمنی، چین، برطانیہ اور فرانس شامل ہیں۔

ٹرمپ کے پہلے صدارتی دور میں اس معاہدے کی منسوخی، پیچیدہ مسئلے کے کسی بھی پُرامن حل کے حوالے سے ایک سنگین دھچکا تھا۔ ایران نے بارہا جوہری طاقت بننے کے اپنی ارادے کی تردید کی ہے۔ اسرائیل کی جانب سے ایک ایسے وقت میں ایران پر حملہ کرنا ایک سوچا سمجھا اقدام لگتا ہے کہ جب لبنان اور شام میں اپنے اتحادیوں کو کھونے کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران کمزور دکھائی دے رہا تھا۔ اگرچہ واشنگٹن نے اسرائیل کی فوجی کارروائی سے خود کو الگ کرلیا ہے، تاہم سیکریٹری آف اسٹیٹ نے اعتراف کیا کہ انتظامیہ کو اس حملے کا پہلے سے علم تھا۔

مغربی ممالک نے ایران کے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کو ختم کرنے کے لیے احتیاطی اقدام کے طور اسرائیلی جارحیت کی توثیق دی ہے۔ اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ مغربی اتحادی جو اکثر باتوں پر اختلاف رائے رکھتے ہیں، اسرائیل کی غیرقانونی جنگ میں متحد ہوگئے ہیں۔ مشترکہ اعلامیہ میں کینیڈا میں جی 7 اجلاس میں شرکت کرنے والے رہنماؤں نے ’اسرائیل کی سلامتی کے لیے‘ اپنی حمایت کا اعادہ کیا اور ایران کو ’علاقائی عدم استحکام اور دہشت گردی کا اصل ذریعہ‘ قرار دیا۔

اس عمل نے مغرب کی منافقت اور دوہرے معیار کا پردہ چاک کیا۔ ایک جانب یہ ممالک ایران کے خلاف اسرائیلی جارحیت کی حمایت کررہے ہیں جبکہ دوسری جانب یہ غزہ میں جاری صہیونی ریاست کی نسل کشی کی بھی مذمت کر رہے ہیں۔

ٹرمپ انتظامیہ اب جنگ کی جانب راغب ہوچکی ہے۔ امریکا کی سرپرستی میں اسرائیل نے اپنے حملوں کو شہری آبادی تک پھیلا دیا ہے جس سے سیکڑوں ایرانی شہید ہوچکے ہیں۔ چند رپورٹس کے مطابق، اسرائیل ایرانی سپریم لیڈر کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ دونوں ممالک گزشتہ کئی دہائیوں سے تنازع کی زد میں ہیں لیکن اب تک ان کے درمیان کبھی بھی مکمل جنگ نہیں ہوئی تھی۔

یہ یقینی ہے کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان یہ اب تک کا سب سے شدید تصادم ہے۔ جنگ کے گزشتہ چند دنوں میں ایران نے اسرائیل کے کافی اندر تک سیکڑوں بیلسٹک میزائل داغ کر اپنی فوجی صلاحیت کا عملی مظاہرہ کیا ہے جس میں عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے اور شہری بھی ہلاک ہوئے ہیں۔

ماضی میں لڑی گئی کسی بھی جنگ میں اسرائیل کو اپنے گھر میں اس نوعیت کے نقصانات کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے۔ اسرائیل کے فضائی اور سائبر حملوں نے ایران کی فوجی صلاحیتوں کو کسی حد تک مفلوج ضرور کیا لیکن ایران اب بھی ایک طویل مدتی جنگ لڑنے کا متحمل ہے۔ اپنی فوجی برتری کے باوجود اسرائیل اب تک اپنا اصل مقصد حاصل نہیں کرپایا ہے جوکہ ایران کے جوہری ڈیولپمنٹ پروگرام کو ناکارہ بنانا ہے۔

دوسری جانب ایران کی جوہری تنصیبات پر اسرائیلی حملوں نے جوہری آلودگی کے خطرے کے بارے میں خدشات کو جنم دیا ہے۔ آئی اے ای اے کے سربراہ رافیل گروسی نے ایران میں تباہ شدہ جوہری تنصیبات سے ممکنہ تابکاری اور کیمیائی آلودگی پیدا ہونے کے حوالے سے خبردار کیا ہے۔

یہ جنگ مشرقِ وسطیٰ کے سیاسی نقشے کو تبدیل کردے گی لیکن نتیجہ امریکا کی منشا کے مطابق نہیں ہوگا۔ یہ وہ سبق ہے جو مشرقِ وسطیٰ میں لڑی گئی اپنی ماضی کی جنگوں کے باوجود امریکا نے نہیں سیکھا۔ اگر امریکا براہ راست شامل ہوتا ہے اور اپنے فوجی ایران میں اُتارتا ہے تو اس سے خطہ مزید غیرمستحکم ہوگا۔ تہران پہلے ہی تنازع میں امریکی شرکت کے خلاف خبردار کرچکا ہے اور خطے میں امریکی مفادات کو نشانہ بنانے کی دھمکی دے چکا ہے۔ یہ ایک نہ ختم ہونے والی جنگ کا آغاز ہے جس کے عالمی سلامتی پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

زاہد حسین

لکھاری صحافی اور مصنف ہیں. ان کا ای میل ایڈریس zhussain100@yahoo.com ہے.

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔