کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر ہیٹ ویوز اور سیلاب کا باعث بن رہے ہیں، ماہرین ماحولیات
ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر مقامی سطح پر انتہائی موسم جیسے کہ ہیٹ ویوز اور سیلاب جیسے واقعات کا سبب بننے والے بڑے عوامل میں شامل ہیں۔
چیف میٹرولوجسٹ امیر حیدر لغاری نے پیر کو ایک مقامی ہوٹل میں منعقدہ ماحولیاتی تبدیلی اور آفات سے نمٹنے کی صلاحیت پر کانفرنس سے خطاب کے دوران تیزی سے بدلتے ہوئے موسمی حالات کے پیش نظر تخفیف اور موافقت کی صلاحیتوں کو مضبوط بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہاکہ کوئلے پر مبنی بجلی گھر مقامی سطح پر انتہائی موسم جیسے کہ ہیٹ ویوز اور سیلاب جیسے واقعات کو جنم دینے اور بڑھانے والے بڑے عوامل میں شامل ہیں، جن کی شدت اور تعداد آئندہ برسوں میں مزید بڑھنے کا امکان ہے۔
اس تقریب کا اہتمام سیسوی پاکستان (CESVI Pakistan) نے فاسٹ رورل ڈیولپمنٹ پروگرام (FRDP)، صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (PDMA) سندھ اور ویلٹ ہنگر ہلف (Welthungerhilfe) کے تعاون سے کیا تھا۔
اس ایونٹ میں حکومت، تعلیمی اداروں، سول سوسائٹی، اقوام متحدہ کی ایجنسیوں اور ترقیاتی شعبے کے کلیدی نمائندوں نے شرکت کی۔
چیف میٹرولوجسٹ امیر حیدر لغاری نے اپنی پریزنٹیشن ’ انتہائی کاربن والے منظرنامے میں سندھ میں ممکنہ ماحولیاتی شدت’ کے عنوان سے پیش کی، انہوں نے بتایا کہ اگرچہ تھرپارکر سمیت دیگر کوئلے پر مبنی منصوبے پاکستان کی معیشت کو مضبوط بنانے میں کردار ادا کریں گے، تاہم یہ ترقی کسی قیمت کے بغیر نہیں آئے گی۔’
انہوں نے خبردار کیا،’ اس کی قیمت ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ میں اضافے کی صورت میں چکانی پڑے گی، جس سے ہیٹ ویوز، سیلاب، پہاڑی علاقوں میں اچانک آنے والے سیلاب جیسے شدید موسمی واقعات کی شدت اور تعداد میں اضافہ ہوگا۔ ’
انہوں نے کہا کہ سندھ میں حال ہی میں نصب ہونے والے کوئلے پر مبنی بجلی کے منصوبے فضا میں بڑی مقدار میں گرین ہاؤس گیسز کے اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا،’ سندھ کے مرکزی علاقوں میں ہیٹ ویوز کے دنوں کی تعداد میں 54 ایام تک کا اضافہ ہوا ہے، جس میں کراچی، مٹھی اور ننگرپارکر بھی شامل ہیں، جہاں ایک اونچے درجے کے اخراج والے منظرنامے میں ہیٹ ویوز کے دنوں میں اضافی 35-40 دن شامل ہو رہے ہیں۔’
امیر حیدر لغاری کے مطابق، سمندری علاقوں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی شدت بڑھنے سے ساحلی علاقوں میں اس کی مقدار مزید بڑھ جائے گی، جس سے ہیٹ ویوز کے دنوں میں مزید اضافہ ہوگا۔
ان کا کہنا تھا،’ مون سون کی ہوائیں سمندر سے اضافی کاربن ڈائی آکسائیڈ اٹھا کر ساحلی علاقوں کی طرف لے جا سکتی ہیں، جبکہ بارش کے متعلق مستقبل کی پیش گوئیاں بتاتی ہیں کہ کم دنوں میں زیادہ بارش ہوگی، یعنی بارش کی شدت میں اضافہ ہوگا۔’
کانفرنس کی ایک اہم بات ایک تحقیقی مطالعے کا اجرا تھا جس کا عنوان تھا،’پاکستان کے حساس علاقوں میں موسمیاتی جدید زراعت بطور آفات سے بچاؤ کی حکمت عملی: ایک کثیر اضلاع کا تقابلی تجزیہ‘
معروف ماہرینِ تعلیم نے یہ مطالعہ پیش کیا، جس میں دکھایا گیا کہ کس طرح موسمیاتی جدید زرعی طریقوں کو اپنا کر آفات کے خطرات کو کم کیا جا سکتا ہے، خوراک کے تحفظ کو بڑھایا جا سکتا ہے اور دیہی علاقوں میں پائیدار ترقی کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔
کانفرنس میں کئی تکنیکی سیشنز بھی شامل تھے، جن میں سندھ کے علاقائی خطرات، درجہ حرارت میں اضافہ، پانی کی قلت، اور بے ترتیب بارش جیسے مسائل پر روشنی ڈالی گئی، اور ان کے سماجی و معاشی اثرات پر قیمتی بصیرت فراہم کی گئی۔
ویلٹ ہنگر ہلف کی کنٹری ڈائریکٹر عائشہ جمشید نے کہا کہ’ یہ کانفرنس آفات سے بچاؤ کی حکمت عملیوں میں ماحولیاتی مزاحمت کو شامل کرنے کے سفر میں ایک سنگ میل ہے ، آج پیش کیے گئے شواہد سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ موسمیاتی جدید زراعت میں سرمایہ کاری نہ صرف پائیداری کے لیے ضروری ہے بلکہ یہ زندگیوں، روزگار اور ماحولیاتی نظام کو تحفظ دینے کا عملی حل بھی ہے۔’
پی ڈی ایم اے سندھ کے آپریشنز کے ڈائریکٹر، شایان شاہ نے اپنے خطاب میں تحقیق پر مبنی سفارشات پر عملدرآمد کے لیے حکومت کے عزم کا اعادہ کیا، انہوں نے کہا کہ’ سندھ ماحولیاتی تبدیلی کے محاذ پر ہے اور مقامی سطح پر مزاحمت کو مضبوط بنانا انتہائی اہم ہے۔’
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت، این جی اوز اور تعلیمی اداروں کے درمیان شراکت داری، جیسا کہ آج یہاں دیکھی گئی، ظاہر کرتی ہے کہ ڈیٹا پر مبنی اور کمیونٹی پر مبنی حکمت عملیاں طویل مدتی پالیسی اور منصوبہ بندی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔’
مزید مباحثے میں زرعی انحصار رکھنے والی کمیونٹیز اور حساس آبادیوں پر موسمیاتی تبدیلی کے غیر متناسب اثرات کو اجاگر کیا گیا۔
اس میں ایک پینل مباحثہ بھی شامل تھا جس کا موضوع ’ موسمیاتی اسمارٹ حل’ تھا، جس میں پانی کے تحفظ، فصلوں کی مزاحمتی پیداوار، مٹی کی صحت کی بہتری اور زرعی ٹیکنالوجی کے انضمام جیسے موضوعات پر گفتگو کی گئی۔
پینلسٹوں نے موسمیاتی اسمارٹ ٹیکنالوجیز میں مزید سرمایہ کاری اور کامیاب پائلٹ منصوبوں کو سندھ کے دیگر خطرے سے دوچار اضلاع میں شروع کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
کانفرنس کا اختتام اس اجتماعی مطالبے کے ساتھ ہوا کہ موسمیاتی اسمارٹ طریقوں کو ادارہ جاتی سطح پر رائج کیا جائے، آفات سے بچاؤ کی حکمت عملی کو تمام ترقیاتی منصوبہ بندی میں شامل کیا جائے، اور یہ یقینی بنایا جائے کہ مستقبل کی موسمیاتی موافقتی حکمت عملیوں میں حساس کمیونٹیز کو مرکزیت حاصل ہو۔