نقطہ نظر

کراچی: صدیوں کی کتھا! (تینتیسویں قسط)

کمپنی سرکار کا وتیرہ تھا کہ وہ ذلت کو کبھی نہیں بھولتی تھی اور ذلت کو پالتی جو نفرت میں تبدیل ہوجاتی اور پھر وہ وقت کا انتظار کرتے کہ کب اس کا سود سمیت بدلہ لے سکیں۔

اس سلسلے کی گزشتہ اقساط یہاں پڑھیے۔


مجھے نہیں پتا کہ ناتھن کرو جب کراچی پر قبضہ کرنے کے لیے انتہائی اہم معلومات تحریر کرتے ہوئے اپنے آقاؤں کو بتاتا ہے کہ جب بارشوں کا موسم ہو تب گذری ایک شاندار بندر کی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ کراچی کوٹ سے جنوب مشرق میں، سمندر سے نکلتی کھاڑی کہ مہانے پر 10 میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ گہرے پانی میں چلنے والے جہاز یہاں لنگر انداز ہوسکتے ہیں اور قریب بڑی لہروں کی وجہ سے یہاں سے لنگر اُٹھا کر سمندر میں آسانی سے جایا جا سکتا ہے۔ کچھ توپیں کناروں کو صاف رکھ سکتی ہیں یہاں سے کراچی کی طرف جانے والا راستہ ہموار اور سخت ہے۔

اگر کچھ رقم لگائی جائے تو کراچی اناج، گھی اور مویشیوں کی مصروف مارکیٹ بن سکتا ہے۔ مگر وہ ہمیں منوڑا قلعہ کے متعلق کچھ نہیں بتاتا کیونکہ تالپوروں نے جب کراچی کے لیے 1792ء میں اپنا گورنر مقرر کیا تھا تو اس نے کچھ وقت کے بعد منوڑا جزیرے کی دفاعی اہمیت کو سمجھتے ہوئے وہاں 1797ء میں ایک دفاعی قلعہ تعمیر کروایا تھا۔

کرو کو اس کے متعلق ضرور کچھ لکھنا چاہیے تھا کیونکہ اس کے 9 برس کے بعد جب ہینری پوٹنجر کمپنی سرکار کے تین جہازوں سمیت کراچی آیا تھا اور کئی دنوں تک کراچی کے سمندری کناروں پر اسے کراچی کے گورنر نے بہت زیادہ پریشان کیا تھا تب اس نے منوڑا قلعہ کا خوب ذکر کیا ہے۔ مگر پوٹنجر کے دلچسپ ذکر سے پہلے ہم مختصراً 19ویں صدی کے ابتدائی 8 برسوں کا ذکر کریں گے جن برسوں میں ایشیا میں جنگوں، قبضوں، نئی سیاسی قوتوں کا اُبھرنا، کمپنی سرکار کی ناراضی اور تالپور صاحبان کی پریشانی کا ذکر ہوگا جس کے بعد ہم 1808ء کے برس تک پہنچیں گے۔

ان 8 برسوں میں ہم اچھی طرح دیکھ سکیں گے کہ کمپنی سرکار اپنے علاوہ کسی سے بھی وفادار نہیں رہی، دھوکا، فریب اور گرگٹ کی طرح وقت کے ساتھ تبدیل ہونا کوئی ان سے سیکھتا اور کمال یہ کہ اس مکروہ عمل پر ان کے چہروں پر کبھی پریشانی کی کوئی لکیر نہیں اُبھری بلکہ وہ ان تگڑم بازیوں اور حرفتوں کو اپنی ذہانت اور کامیابی سمجھتے۔

کرو تو سندھ حکومت کے ملے ہوئے سخت احکامات کو مانتے ہوئے سندھ چھوڑ کر جا چکا تھا۔ غلط یا صحیح سندھ کے حکمران اپنی بازی چل چکے۔ لگتا ایسا ہے کہ تالپوروں کو کمپنی سرکار کو کوٹھی قائم کرنے کی نہ اتنی جلدی اجازت دینی چاہیے تھی اور اگر اجازت دے ہی دی تھی تو سہانے سپنے دکھانے کے بعد کوٹھی کو فوراً بند کرنے کے احکامات جاری کرنے کے متعلق پہلے سنجیدگی سے سوچنا چاہیے تھا۔

خارجہ پالیسی جس چڑیا کا نام ہے وہ شاید کبھی میروں کی حکومت کے گھنے درخت پر بیٹھ کر دو بول نہیں بولی جس کی وجہ سے آنے والا وقت میر صاحبان کے لیے انتہائی مشکل ثابت ہونے والا تھا۔ ابھی 19ویں صدی نے رمضان کے دو چاند بھی نہیں دیکھے تھے کہ 12 مئی 1802ء کو میر فتح علی خان تالپور بدھ کے دن سخت گرم موسم میں کینسر کی بیماری میں انتقال کرگئے اور ان کی جگہ تخت پر میر غلام علی خان تالپور براجمان ہوا۔

ابھی کچھ ہی ماہ گزرے تھے کہ 1803ء میں شاہ شجاع دُرانی شکارپور آن پہنچا کہ خراج کی ادائیگی کی جائے۔ میر غلام علی نے اپنی جگہ پر میر مراد علی خان کو قائم مقام حاکم بنایا اور خود شجاع سے ملنے شکارپور تک گیا وہاں سے لاڑکانہ آیا جہاں میر سہراب خان بھی پہنچا۔ دونوں نے صلح مشورہ کیا کہ کوئی بہانہ بنا کر شجاع درانی سے پیچھا چھڑانا چاہیے مگر ان کی کوئی ترکیب کام نہ آئی۔ البتہ یہ اتفاق ضرور ہوا کہ ان دنوں ایران کی طرف سے ہرات پر لشکر کشی کی خبر شاہ شجاع تک پہنچی، موسم بھی گرم تھا۔ آخر 10 لاکھ خراج اور تحائف لے کر شاہ شجاع روانہ ہوا۔ حالات ٹھیک ہوئے تو میر سہراب خیرپور میرس گیا اور میر غلام علی تالپور واپس حیدرآباد لوٹا اور شکار کے لیے جنوبی سندھ کی جھیلوں کی طرف تیتر و بٹیر کا شکار کرنے چلا گیا۔

شکار سے لوٹنے کے بعد جب تینوں میر اور وزیر حالات پر بات کرنے بیٹھے تو یہ فیصلہ کیا کہ کمپنی سرکار کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا چاہیے کیونکہ افغان کی طرف سے ان پر لاگو خراج کا یہ بوجھ اب ان سے اٹھایا نہیں جا رہا تھا۔ اس کے مقابلے میں کمپنی سرکار سے دوستی ان کو بہتر لگی۔ 1800ء سے 1803ء تک مسٹر کرو اور سندھ حکومت کا آپس میں خط و کتابت کا سلسلہ جاری رہا۔

میر غلام علی خان تالپور نے اپنے وکیل کے ساتھ وفد کو بمبئی بھیجا کہ گوری سرکار سے ٹُوٹی ہوئی دوستی کی ڈور کو پھر سے باندھ سکے مگر کمپنی سرکار کو جو سندھ حکومت سے ذلت کے زخم ملے تھے وہ ابھی تازہ تھے۔ کمپنی سرکار کا یہ بھی وطیرہ تھا کہ ملی ذلت کو کبھی نہیں بھولتی تھی اور ذلت کو اس طرح پالتے کہ وہ نفرت میں تبدیل ہوجاتی اور پھر وہ وقت کا انتظار کرتے کہ کب اس کا سود سمیت بدلہ لے سکیں۔

سندھ کا وفد بمبئی تو ضرور پہنچا مگر انہیں کوئی خاص پروٹوکول نہیں دیا گیا۔ باتیں ٹھنڈے اور غیردلچسپ ماحول میں شروع ہوئیں۔ کمپنی سرکار نے بیوپاری کوٹھی میں جو ایک لاکھ 9 ہزار 769 روپے کا نقصان ہوا تھا وہ واپس کرنے کو کہا مگر سندھ کے وکیل کے پاس اتنے اختیارات نہیں تھے کہ وہ ان کے متعلق کوئی وعدہ کرتا۔ پھر کمپنی نے جو تالپوروں کو تحفے تحائف دیے تھے ان پر بات ہوئی مگر فریقین کی باتیں، نشستن، گفتن، برخاستن ثابت ہوئیں۔ سندھ کا وفد کچھ وقت بمبئی میں رہنے کے بعد ناکام واپس لوٹ آیا۔

1799ء میں کمپنی سرکار کا سفیر ایران میں معاہدہ کرنے کے لیے موجود تھا جبکہ فرانس بھی ایران سے معاہدہ کرنا چاہتا تھا مگر ایران نے فرانس سے کوئی بھی معاہدہ کرنے سے سختی سے انکار کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب فرانس انگریز ہندوستان پر حملہ کرنے کا سوچ رہا تھا مگر ایران نے کمپنی سرکار سے جو معاہدہ کیا اس پر وقت آنے پر گوری سرکار نے کوئی عمل نہیں کیا۔ روس کی وجہ سے ایران بہت پریشان تھا کہ وہ اس کے ملک کے حصوں پر قبضہ کرتا آگے بڑھ رہا تھا۔ ’ہسٹری وار آف افغانستان‘ کا مصنف کائے لکھتا ہے کہ ’اس زمانے میں ہندوستان کی انگریز سرکار یا تو بےحد مصروف تھی یا ایران سے لاپروا ہوگئی تھی۔

’ایران روس کے حملے کی وجہ سے تناؤ میں تھا اور اس تناؤ سے چھٹکارا پانے کے لیے ایران نے فرانس سے معاہدہ کرلیا۔ فرانس ایران سے معاہدہ ہونے پر خوش تھا۔ ایران سے دوستی کے بعد نپولین روس پر حملہ کرنے کے متعلق بہتر طریقے سے سوچ سکتا تھا کیونکہ روس، ایران اور فرانس دونوں کی مخالفت میں تھا۔ فرانس کے جنگی ماہروں نے ایران کی فوج کو جدید جنگی ٹریننگ دینے میں دیر نہیں کی۔ ایران اور فرانس کی یہ مشترکہ طاقت انگلینڈ اور ہندوستان کی کمپنی سرکار کے لیے انتہائی مشکل اور پریشان کُن حالات پیدا کر رہی تھی‘۔

وہ اس حملے کی تیاریوں اور اقدامات میں مصروف ہوئے جو حملہ کبھی ہونا ہی نہیں تھا مگر ان دنوں حالات جو منظر پیش کر رہے تھے اس سے کچھ ایسا ہی محسوس ہوتا ہوگا۔ ماڑیولا لکھتے ہیں کہ ’فرانس کا ہندوستان پر حملہ ناممکن تھا۔ یہ امکان ہی نہیں تھا کہ وہ 60 ہزار کا لشکر اونٹوں پر سوار کرکے، عرب اور بلوچستان جیسے انتہائی مشکل ریگستانوں سے ہوتا ہوا آ کر دریائے سندھ کے کنارے پر منزل کرے۔ نپولین کے حملوں کی وجہ سے پورا یورپ اس سے خوفزدہ تھا۔ اس فرانسیسی جنرل نے مصر کو فتح کیا۔

’اس نے ایران کے لیے جو وفد بھیجا اسے بھی ایران نے عزت و تکریم دی۔ اس وجہ سے محسوس ہو رہا تھا کہ ایران اور فرانس کا لشکر اکٹھا ہو کر بلوچستان کا ریگستان اور سندھو دریا کو پار کرکے انگریزوں کے ہندوستان کے کسی نہ کسی علاقے کو فتح کر لے گا۔

’باہر سے بھی ایسا لگ رہا تھا کہ ایسے حالات میں فرانس کے لیے ہندوستان کو فتح کرنا انتہائی ضروری ہوگیا ہے۔ اس خوف کی وجہ سے گوری سرکار کے گلے خشک ہو رہے تھے۔ شمال میں روس، مغرب میں فرانس اور ایران اور نزدیک شمال میں سندھ کے حاکموں کی سندھ اور اس سے کچھ دور افغانستان!‘

جولائی 1807ء میں نپولین اور روس کے حکمران الیگزینڈر کے بیچ میں ایک معاہدہ ہوا جس میں ہندوستان پر مشترکہ حملہ کرنے کی شرط بھی شامل تھی۔ گوری سرکار کو اب یہ بھی ڈر تھا کہ روس کے دشمن ہونے کے ساتھ کل اگر افغانستان کے ساتھ بھی ان کا کوئی معاہدہ ہوا تو وہ مذہب کو بنیاد بنا کر حملہ کر سکتا ہے۔

اب ایسی صورت حال میں گوری سرکار کے لیے لازمی ہو گیا تھا کہ روس اور ہندوستان کے درمیان والے ممالک کی طرف مختلف وفود کو بھیج کر انہیں اپنی طرف کیا جائے کہ جنگ کی حالت میں وہ ان کے کام آ سکیں۔ ان دنوں ہندوستان کا گورنر جنرل، جنرل لارڈ منٹو تھا۔ اس نے یہ سوچا کہ روس اور ہندوستان کے بیچ میں دو ایسے ملک پیدا کیے جائیں جو دشمنوں کے حملے کے وقت ہندوستان کا ساتھ دیں اور ان کے سہارے اس حملے کو پسپا کیا جا سکے۔ اس لیے اندرونی جوڑ توڑ کے لیے دریائے سندھ کے کناروں والے ملک سندھ اور پنجاب کو چنا گیا اور بیرونی منظرنامے کے لیے افغانستان اور ایران کے لیے سوچا گیا۔

ان سنجیدہ حالات کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کے لیے ہندوستان کے گورنر جنرل نے سندھ، پنجاب، ایران اور افغانستان اپنے وفود روانہ کیے۔ سندھ کے لیے جو وفد بھیجا گیا تھا اس کی سربراہی کیپٹن ڈیوڈ سیٹن (Captain David Seton) کر رہا تھا اور ساتھ میں جوناتھن ڈنکن بھی تھا۔ یہ وفد جولائی 1808ء حیدرآباد پہنچا۔ سیٹن کے پہنچنے سے پہلے ایران کا ایلچی سندھ کی دربار میں موجود تھا جو ایرانی حکومت کی جانب سے سندھ کے امیروں کے ساتھ دوستی کا پیغام لایا تھا۔ دوسری جانب انگریز وفد نے بھی سندھ کے حاکموں کو محسوس کروایا کہ اگر تالپور ہماری مدد کریں گے تو قندھار کے قلعے کو فتح کرنا اور کابل کے امیر کے پڑے طوق سے جان آزاد ہوگی۔ آخر 18 جولائی 1808ء کو فریقین میں عہدنامہ ہوا جس کا لب لباب کچھ اس طرح سے تھا کہ،

یہ عہدنامہ 24 جولائی 1808ء میں ہوا مگر گورنر جنرل کی تصدیق کی مہر لگنا ابھی باقی تھی۔ اس کے بغیر اس عہدنامے کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ لارڈ منٹو نے اس عہدنامے پر اپنی رضامندی ظاہر نہیں کی لیکن کیوں؟ ماڑیوالا لکھتے ہیں کہ ’انگریز سرکار کو یہ خدشہ تھا کہ جس وقت سیٹن سندھ کے دربار میں یہ معاہدہ کرنے پہنچا تو وہاں پہلی ہی ایران اور فرانس کے سفیر موجود تھے۔ ان تینوں میں معاہدوں کی باتیں ہو رہی تھیں۔ انگریز سفیر پر فرانس کے حملے کا بھوت سوار تھا اس لیے اس نے جب تالپوروں سے معاہدہ کیا تو مرکز سے ملی ہوئی ہدایات اور مشوروں کو وہ بالکل بھول گیا۔

’تالپوروں سے جنگ اور بچاؤ کے وہ وعدے کر بیٹھا جو اس کے اختیار میں ہی نہیں تھے اور نہ ہی مرکزی حکومت ایسا کوئی معاہدہ چاہتی تھی۔ اس لیے سیٹن اور وفد کو ستمبر میں واپس کلکتہ بلایا گیا کیونکہ اسے جس مقصد کے لیے سندھ بھیجا گیا تھا کہ وہ سندھ سے افغانستان کے خلاف معاہدے پر بات چیت کرے۔ کیونکہ انگریزوں کے دو متوقع دشمن ہیں ایک ایران اور دوسرا افغانستان جنہیں فرانس اور روس کی مدد حاصل ہے۔

’چونکہ اب ایران اور کمپنی سرکار کے بیچ میں دوستی کا معاہدہ ہوگیا ہے اس لیے اب فقط افغانستان بچتا ہے جس پر نظر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ اگر انگریز دشمن کی درست معلومات حاصل کرنے کے لیے سندھ کو ایک ہیڈ کوارٹر کے طور پر استعمال کرتے ہیں تو سندھ کے حکمرانوں سے انگریز دشمن خلاف امداد کی توقع نہیں رکھنی چاہیے‘۔

بہرحال جو بھی ہوا، وہ تبدیل ہوتے ہوئے حالات کی وجہ سے ہوا کیونکہ مغرب اور شمال کی جانب سے سیاسی طور پر دھول اُڑ رہی تھی کہ منظرنامہ صاف کسی کو بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔ ایلچیوں کے قافلے تھے کہ ایشیا کی درباروں میں ادھر سے ادھر کے سفر میں مصروف تھے۔ میں سر جان ولیم کائے کے اس جملے پر سیٹن کے سندھ پہنچنے اور عہدنامے کے موضوع کو ختم کرتا ہوں۔ وہ اپنی مشہور تصنیف میں لکھتے ہیں کہ ’جس وقت سیٹن (Seton) سندھ کی دربار میں پہنچا تھا تو ایران کا سفیر اس سے پہلے وہاں موجود تھا جو افغانستان کے خلاف سندھ سے اتحاد کرنے کے لیے تیار تھا مگر سیٹن نے سندھ کے امیروں کو اس بات کے لیے تیار کیا کہ وہ افغانوں کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کے لیے انگریزوں سے مدد مانگیں۔

’تالپوروں نے سیٹن سے ایسا معاہدہ کیا (جس کا آپ ابھی مطالعہ کرچکے ہیں) مگر بعد میں کمپنی سرکار یہ کہہ کر معاہدے سے مکر گئی کہ افغانستان اس کا دوست ہے اس لیے وہ اس معاہدے پر عمل نہیں کر سکیں گے‘۔

میرے سامنے ہینری پوٹنجر کا وہ تفصیلی سفرنامہ سامنے موجود ہے جو انہوں نے دوسرے سندھ بھیجے ہوئے وفد کے ساتھ ہونے کی وجہ سے لکھا تھا اور پوٹنجر کی تحریر کا کمال یہ ہے کہ وہ جس آنکھ سے دیکھتا ہے یا محسوس کرتا ہے یا اس پر جو بیت رہی ہوتی ہے، وہ بڑے سلیقے سے تحریر کے دائرے میں لاتا ہے۔ یہ دلچسپ سفرنامہ آپ کو سنانے سے پہلے جس میں کراچی کے متعلق بہت ساری معلومات بھری پڑی ہے، میں آپ کو کمپنی سرکار کی وہ ہدایات ضرور سنانا چاہوں گا جو اس وفد کو سندھ جانے سے پہلے دی گئی تھیں۔

اس حوالے سے میں ماڑیوالا سے ضرور مدد لینا چاہوں گا۔ ’سندھ جانے والے نئے وفد کو ہدایات دی گئیں کہ سندھ حکومت سے کوئی بڑا معاہدہ نہ کیا جائے بلکہ ایسا معاہدہ ضرور کیا جائے جس سے کمپنی سرکار کو وہاں اڈہ مل جائے جہاں بیٹھ کر ایران، روس، فرانس اور افغانستان میں پَنپتی سازشوں کا پتا لگایا جا سکے۔ جب یہ وفد بمبئی سے نکلا تو حالات سے ظاہر ہونے لگا کہ فرانس کا ہندوستان پر حملہ ممکن نہیں ہے کیونکہ وہاں کے سیاسی حالات ایسے نہیں ہیں کہ دوسرے ملک پر حملہ کیا جائے اور وہ بھی اتنی دور۔

’جب فرانس پر حملے کا خوف گوری سرکار کے سر سے اترا تو بھیگی بلی بنی انگریز سرکار نے عادت کے مطابق شیر کا روپ لے لیا۔ نئے بھیجے ہوئے وفد کو یہ سمجھا کر بھیجا کہ سندھ کے حکمرانوں سے کوئی رعایت نہ کی جائے بلکہ کچھ سختی سے پیش آنا چاہیے اور انہیں یہ ضرور سیکھ ملنی چاہیے کہ کمپنی سرکار کے افسران کی دل سے عزت اور احترام کرنا چاہیے اور سندھ کے امیروں سے کسی نرمی سے بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ برابری کے بنیاد پر بات ہونی چاہیے‘۔

جب تک انگریزوں کو فرانس کے حملے کا ڈر تھا تو انہوں نے جو 1803ء میں اپنے کراچی والے نقصان کے پیسے واپس کرنے پر بضد تھا، 1808ء میں ان پیسوں کی بات تک نہیں کی بلکہ اس نقصان سے ہاتھ اٹھا لیا جب فرانس کا خوف ختم ہوا تو پھر وہ ہی اکڑ ان میں پھر عود آئی۔ چلیے 1808ء میں سیٹن کے کیے ہوئے معاہدے کو منسوخ کرنے اور نئی بات چیت کرنے کے لیے کمپنی سرکار کا ایک وفد کراچی کے کنارے پر پہنچنے والا ہے جسے جو ہدایات دی گئی تھیں ان کا ذکر ہم ابھی کر چکے ہیں۔

کمپنی سرکار نے سندھ بھیجنے کے لیے بمبئی سول سروس کے نکولس ہینکی اسمتھ کو سفیر مقرر کیا۔ بنگال سول سروس کے ہینری ایلس ایسکوائر کو اس کا فرسٹ اسسٹنٹ نامزد کیا گیا،بمبئی کے مقامی پیدل فوج کے لیفٹیننٹ رابرٹ ٹیلر اور ہینری پوٹنجر کو سیکنڈ اور تھرڈ اسسٹنٹ مقرر کیا گیا۔ کیپٹن چارلس کرسٹی کو استقبالیہ دستے کی کمان سونپی گئی۔ ولیم ہال اسکوائر کو سرجن کے طور پر اور بمبئی میرین کے کیپٹن ولیم میکسفیلڈ کو میرین سرویئر کے طور پر شامل کیا گیا۔

انہیں سندھ بھیجنے کے لیے بڑا بجٹ رکھا گیا تاکہ یہ ٹیم بڑے طمطراق اور رعب کے ساتھ سندھ کی زمین پر قدم رکھے۔ اس سفر میں چونکہ ہینری پوٹنجر ساتھ ہیں تو اس پورے سفر کا آنکھوں دیکھا حال ہم نے مسٹر پوٹنجر کی زبانی ہی سننا ہے۔ اس حوالے سے اس کی مشہور تصنیف Travels in Balochistan and Sinde ہماری مدد کرے گی۔

1809ء میں، ان شاندار تیاریوں کے ساتھ ماریہ نام کا ایک دیسی ساخت کا بیڑہ ایلچی اور اس کی ٹیم کو کراچی بندرگاہ تک پہنچانے کے لیے کرایے پر حاصل کیا گیا اور کمپنی سرکار کے جنگی جہاز پرنس آف ویلس، کیپٹن ایلین اور تین ہتھیاروں سے لیس جہازوں سمیت ان کے ہاں حاضر رہنے کے احکامات جاری کیے گئے۔

27 اپریل 1809ء دوپہر کے بعد وفد ماریہ جہاز پر سوار ہوا اور دیگر جہازوں سمیت یہ اپنی منزل کی جانب روانہ ہوئے۔ یہ سفر بڑے آرام سے ہو رہا تھا۔ یہ وفد 9 مئی 1809ء کو کراچی پہنچے گا۔ ہم بھی کوشش کریں گے کہ اُس وقت اس وفد کے آس پاس رہیں۔

حوالہ جات

ابوبکر شیخ

ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔