تاریخ کے اوراق، بہمن آباد شہر کی وسعت اور خوبصورتی کا ذکر کرتے نہیں تھکتے لیکن اس شہر کے زوال کے متعلق کمال کی بات یہ ہے کہ کوئی ایک محقق دوسرے محقق سے اتفاق نہیں کرتا۔
کراچی کی ملیر وادی اس مقام پر موجود ہے جہاں ماضی میں مغرب اور شمال سے آنے والے بیوپاری قافلوں کی قدیمی گزرگاہ ہوا کرتی تھیں اور یہی عشقیہ داستان کے کرداروں سسی اور پنھوں کی گزرگاہ بھی تھی۔
آج کے سفر میں سکندراعظم کے ان حملوں پر بات کریں گے جو اس نے دریائے سندھ کے قرب و جوار بالخصوص مغرب کی طرف بسنے والی مقامی حکومتوں پر کیا تاکہ سکندراعظم کے کراچی تک پہنچنے کو سمجھا جاسکے۔
سکندر اعظم ٹیکسلا سے سکون سے گزرتا آگے بڑھا اور جیسے ملتان کے قریب پہنچا تو اُسے مقامی حکومتوں سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا بلکہ سکندر کو مقامی لوگوں کا پہلا تیر ملتان کے آس پاس لگا۔
پرانے زمانے کی بستیاں جہاں مٹی سے بنی اور بھٹی میں پکی چوڑیوں کے مقابلے سنکھ سے چوڑیاں بنانا نہ صرف انتہائی مشکل تھا بلکہ انہیں بنانے کے لیے زیادہ صبر، سکون اور ذہانت کی سخت ضرورت تھی۔
لاکھوں یا ہزاروں برس پہلے کے انسانوں کے ملنے والے فوسلز سے پتا چلتا ہے قدیم انسان کبھی بھی قحط یا خوراک کی کمی کا شکار نہیں رہا کیونکہ اُن کے پاس خوراک کی تلاش کے سوا اور کوئی دوسرا کام نہیں تھا۔
انسان کے ارتقائی سفر کے دوران سندھو گھاٹی میں جہاں جہاں بستیاں اپنی معروضی حالت میں پنپ رہی تھیں، درحقیقت انجانے میں وہ آنے والے دنوں کے لیے ایک تہذیب کی تخلیق کررہی تھیں۔
ہمارا آج کا سفر سمندر کنارے اور ان پہاڑیوں کے جنگلات، آبشاروں، غاروں اور قدامت کی ان پگڈنڈیوں پر ہے جہاں سندھو گھاٹی کی قدیم تہذیب اور زرعی بستیاں آباد تھیں۔
قدیم بستیوں کی کھوج سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ نو حجری دور کی ثقافتی باقیات چمکیلے پتھر کے اوزاروں اور ہتھیاروں کی صورت میں وادی لیاری اور دریائے حب تک کے وسیع علاقوں میں باکثرت ملے ہیں۔