پاکستان

گیس سے بجلی پیدا کرنے کی لاگت میں ایک روپیہ فی یونٹ اضافہ

ایک روپیہ فی یونٹ اضافے کے بعد بھی گیس سے بجلی پیدا کرنا درآمدی کوئلے اور ایل این جی کے مقابلے میں سستا رہے گا، سربراہ سی سی پی اے

حکومت کی جانب سے گیس کی قیمتوں میں اضافے کے نتیجے میں گیس سے بجلی پیدا کرنے والے پاور پلانٹس کی بجلی کی قیمت میں فی یونٹ ایک روپیہ اضافہ ہوگا۔

ڈان اخبار میں شائع خبر کے مطابق نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کے تحت پیر کو ہونے والی ایک عوامی سماعت میں بتایا گیا کہ حکومت نے بجلی گھروں کے لیے گیس کی قیمت میں 17 فیصد اضافہ کرتے ہوئے اسے یکم جولائی سے ایک ہزار 50 روپے سے بڑھا کر ایک ہزار 225 روپے فی یونٹ کر دیا ہے۔

مرکزی پاور پرچیزنگ ایجنسی (سی پی پی اے) کے سربراہ ریحان اختر کی قیادت میں موجود حکومتی ٹیم نے کہا کہ ایک روپیہ فی یونٹ اضافے کے بعد بھی گیس سے بجلی پیدا کرنا درآمدی کوئلے اور ایل این جی کے مقابلے میں سستا رہے گا۔

ریحان اختر نے سماعت میں بتایا کہ سی پی پی اے نے اصل میں مئی کے لیے بجلی کے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ (ایف سی اے) میں 10 پیسے فی یونٹ اضافے کی درخواست دی تھی، تاہم اب اسے نظرثانی کے بعد تبدیل کیا گیا ہے، ان کے مطابق مئی میں فی یونٹ پیداواری لاگت 7.49 روپے رہی جبکہ صارفین سے 7.39 روپے کے حساب سے وصولی کی گئی، جس کی وجہ سے 1.25 ارب روپے اضافی لاگت پڑی۔

انہوں نے بتایا کہ مجموعی طور پر ایندھن کی قیمتیں اندازوں کے مطابق رہیں، تاہم دو اہم نیوکلیئر پاور پلانٹس، چشمہ 1 اور کراچی نیوکلیئر پلانٹ، ایندھن کی تبدیلی کے معمول کے عمل کی وجہ سے بجلی کی فراہمی کے عمل سے عارضی طور پر باہر رہے۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ آزاد پاور پروڈیوسرز کے ساتھ تقریباً 5 ارب روپے کی ادائیگی کا معاملہ طے پا چکا ہے، جسے صارفین کو منتقل کیا جائے گا، جس کا فائدہ تقریباً 1.43 روپے فی یونٹ ہوگا، چونکہ جون میں صارفین سے 93 پیسے زیادہ ایف سی اے وصول کیا گیا، اس لیے جولائی میں صارفین کو مجموعی طور پر 50 پیسے فی یونٹ کا فائدہ پہنچے گا۔

پاور ڈویژن پر تنقید

دوسری طرف پاور ڈویژن کو نیپرا، کےالیکٹرک اور کراچی کے صارفین کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ اس نے اپریل میں استعمال کی گئی بجلی پر کے الیکٹرک صارفین کے لیے 4.69 روپے فی یونٹ منفی ایف سی اے ایڈجسٹمنٹ کو مؤخر کرنے کی درخواست کی۔

نیپرا کی ممبر قانون آمنہ احمد نے کہا کہ پاور ڈویژن گزشتہ 2 سال سے اس معاملے پر’گہری نیند’ میں تھا اور اب اچانک بیدار ہو کر اس عمل کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے، انہوں نے کہا کہ منفی ایف سی اے سے متعلق درخواست کافی عرصے سے عوامی سطح پر موجود تھی، اور اب پاور ڈویژن نے وفاقی کابینہ اور وزیر اعظم کی منظوری کے بغیر اس میں التوا مانگا ہے، جو آئین اور سپریم کورٹ کے سابقہ فیصلوں کے خلاف ہے۔

سماعت پہلے بھی مؤخر کی گئی تھی لیکن پاور ڈویژن تاحال کوئی قانونی جواز پیش کرنے میں ناکام رہا ہے، پاور ڈویژن کے ایڈیشنل سیکریٹری محفوظ بھٹی نے وضاحت کی کہ یہ معاملہ حکومتی سبسڈی سے متعلق ہے اور حکومت ملک بھر میں ایف سی اے کو یکساں بنانا چاہتی ہے، ان کا کہنا تھا کہ کابینہ کی منظوری کے لیے معاملہ زیر غور ہے اور 10 سے 15 دن میں فیصلہ متوقع ہے۔

نیپرا کے چیئرمین وسیم مختار اور آمنہ احمد نے کہا کہ ایسے اصول آئندہ کے لیے غور طلب ہو سکتے ہیں، لیکن موجودہ طریقہ کار کو جاری رہنا ہوگا کیونکہ پاور ڈویژن اس وقت حکومت کی واضح قانونی حمایت کے بغیر کوئی باقاعدہ حیثیت نہیں رکھتا۔

کےالیکٹرک کے سی ای او مونس علوی نے سوال اٹھایا کہ جب کے الیکٹرک صارفین پہلے ہی زیادہ ایف سی اے ادا کر رہے ہیں تو یکساں ایف سی اے کی تجویز اب کیوں لائی جا رہی ہے، نیپرا نے کہا کہ وہ اس معاملے کا قانونی پہلو سے جائزہ لے کر فیصلہ کرے گا۔