پاکستان

کراچی کی 11 شاہراہوں پر رکشوں پر پابندی سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج

کراچی میں تقریباً 60 ہزار چنگچی رکشے چل رہے ہیں، مشاورت کے بغیر پابندی لگادی گئی ہے، اس پابندی سے غریب رکشہ ڈرائیورز اور متوسط طبقہ متاثر ہو رہا ہے، چنگچی رکشہ ایسوسی ایشن

سندھ ہائی کورٹ (ایس ایچ سی) نے بدھ کے روز شہر کی مختلف اہم سڑکوں پر رکشوں کی آمدورفت پر پابندی کے خلاف دائر درخواست پر محکمہ ٹرانسپورٹ، کمشنر کراچی اور دیگر فریقین کو نوٹس جاری کر دیے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق جسٹس ذوالفقار علی سانگی اور جسٹس نثار احمد بھنبھرو پر مشتمل دو رکنی بینچ نے صوبائی لا افسر کو بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے فریقین اور ایڈووکیٹ جنرل کو 16 جولائی تک تحریری جواب داخل کرنے کی ہدایت کی ہے۔

آل کراچی چنگچی رکشہ ایسوسی ایشن کی جانب سے دائر درخواست میں چیف سیکریٹری سندھ، سیکریٹری ٹرانسپورٹ اینڈ ماس ٹرانزٹ، کمشنر کراچی، ایڈیشنل آئی جی کراچی، ڈی آئی جی ٹریفک اور دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔

درخواست میں 15 اپریل کو کمشنر کراچی کی جانب سے جاری کردہ نوٹی فکیشن کو چیلنج کیا گیا ہے، جس کے تحت کراچی کی 11 بڑی شاہراہوں پر تمام اقسام کے رکشوں پر مکمل پابندی عائد کی گئی تھی۔

درخواست گزار کے وکیل صلاح الدین گنڈاپور نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ کراچی میں تقریباً 60 ہزار چنگچی رکشے چل رہے ہیں اور یہ پابندی درخواست گزار سے مشاورت کے بغیر لگائی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ اقدام نہ صرف غریب رکشہ ڈرائیورز اور ان کے خاندانوں کے لیے تباہ کن ہے بلکہ اس پابندی سے متوسط طبقہ بھی متاثر ہو رہا ہے، کیونکہ رکشہ ہی سب سے سستا ذریعہ سفر ہے۔

وکیل نے مزید موقف اپنایا کہ ہر شہری کو قانونی ذرائع سے روزگار کمانے کا حق حاصل ہے اور جن رکشوں پر پابندی لگائی گئی ہے وہ سب باقاعدہ رجسٹرڈ، فٹنس سرٹیفکیٹ یافتہ اور پرمٹ شدہ ہیں۔

درخواست میں کہا گیا کہ صوبائی حکومت نے 2013 میں بھی ایسی پابندی عائد کی تھی، جو 2015 میں سندھ ہائی کورٹ نے مسترد کر دی تھی، بعد ازاں معاملہ سپریم کورٹ میں پیش ہوا، جس نے 2017 میں چند شرائط کے ساتھ رکشوں کو چلنے کی اجازت دی۔

ایسوسی ایشن کا مؤقف ہے کہ موجودہ نوٹی فکیشن میں کمشنر نے ٹریفک مسائل اور رش کو پابندی کی وجہ قرار دیا حالانکہ اصل مسائل غیر قانونی تجاوزات اور سڑکوں پر غلط پارکنگ ہیں، جنہیں حکومت نے کبھی ختم کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی بلکہ اس کے بجائے رکشوں پر پابندی لگا دی۔

درخواست گزار نے متعلقہ اداروں کو کئی درخواستیں بھی دیں جن میں ٹریفک جام کی اصل وجوہات کی نشاندہی کی گئی، مگر کوئی کارروائی عمل میں نہیں آئی۔

مزید کہا گیا کہ حکومت نے کبھی بھی قانونی طور پر حاصل کردہ گاڑیوں پر پابندی نہیں لگائی، اس لیے یہ نوٹی فکیشن قانون کے مطابق برقرار نہیں رہ سکتا۔

درخواست گزار نے مؤقف اپنایا کہ یہ نوٹی فکیشن آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 8، 9، 10، 21 اور 25 کی خلاف ورزی ہے اور عدالت سے استدعا کی کہ اسے کالعدم قرار دیا جائے۔