میڈیا کوریج کے دوران زیر حراست ملزمان اور متاثرین کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے، سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے پیر کے روز ایک فیصلے میں مجرمانہ تحقیقات کے دوران میڈیا کوریج کے قانونی اور اخلاقی مضمرات کو اجاگر کرتے ہوئے میڈیا سے مطالبہ کیا کہ وہ رپورٹنگ کرتے وقت ذمہ داری کا مظاہرہ کرے تاکہ ملزمان اور متاثرین دونوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس اطہر من اللہ نے 25 صفحات پر مشتمل فیصلے میں مشاہدہ کیا کہ میڈیا کی غیر متناسب اور حد سے زیادہ توجہ اور اس کی پیشکش کا انداز، جرم کے تاثر کو جنم دے سکتا ہے، عوام اور ان افراد پر اثرانداز ہو سکتا ہے جو مجرمانہ کارروائیوں سے وابستگی کے الزام کا سامنا کر رہے ہوں۔
جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے ملزم شاہد علی کی اپیل کی سماعت کی جو سندھ ہائی کورٹ کے 15 مارچ 2021 کے فیصلے کے خلاف تھی، جس میں ٹرائل کورٹ کی جانب سے دی گئی سزائے موت کو برقرار رکھا گیا تھا۔
یہ کیس کراچی میں 7 سالہ بچے وسیم اکرم کے اندوہناک قتل سے متعلق تھا جس کی لاش 9 مارچ 2014 کو پانی کی ٹنکی سے ملی تھی، ٹرائل کورٹ نے شاہد علی کو پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 302 (بی) کے تحت مجرم قرار دے کر سزائے موت سنائی تھی، تاہم سپریم کورٹ نے شک کا فائدہ دیتے ہوئے ملزم کو بری کر دیا اور فوری رہائی کا حکم دیا۔
اس مقدمے میں تنازع اس وقت پیدا ہوا جب ایک صحافی نے ملزم کا انٹرویو اس وقت ریکارڈ کیا جب وہ جسمانی ریمانڈ پر تھا اور تفتیشی افسر (آئی او) کی تحویل میں تھا، یہ انٹرویو بعد میں 27 مارچ 2014 کو ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام ’جرم بولتا ہے‘ میں نشر کیا گیا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ یہ کیس ایک کلاسیکی مثال ہے جہاں ملزم کو صرف تفتیش کے لیے جسمانی ریمانڈ پر تحویل میں رکھا گیا تھا، اور وہ قانونی طور پر بے گناہ تصور کیا جا رہا تھا، لیکن پولیس اسٹیشن کے انچارج اور تفتیشی افسر نے ایک صحافی کو انٹرویو کی اجازت دی۔
یہ بیان کیمرے پر ریکارڈ کیا گیا اور ٹی وی نشریات کے ذریعے عوام تک پہنچایا گیا، عدالت نے متاثرہ بچے کے خاندان کے احساسات پر بھی تشویش ظاہر کی جو اس عمل سے متاثر ہو سکتے تھے۔
عدالت نے قرار دیا کہ پولیس اہلکاروں نے ایسا طریقہ اختیار کیا جس کے بارے میں وہ جانتے تھے کہ یہ غیر قانونی ہے اور اس سے ملزم کے حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہو سکتی ہیں، ان کے اس اقدام نے عوام میں جرم کے تاثر کو جنم دیا، حالانکہ ملزم نہ تو چارج ہوا تھا اور نہ ہی تفتیش مکمل ہوئی تھی۔
عدالت نے اس بات کا سختی سے نوٹس لیا کہ ملزم کا انٹرویو اُس وقت نشر کیا گیا جب وہ پولیس کی تحویل میں تھا۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ یہ مبینہ اعترافی بیان ناقابلِ قبول تھا، کیونکہ ملزم کو ضابطہ فوجداری کی دفعہ 164 کے تحت کسی مجاز مجسٹریٹ کے سامنے پیش نہیں کیا گیا تھا۔
عدالت نے الیکٹرانک میڈیا کی اُس عام روایت پر بھی تنقید کی جس میں ملزمان کو کیمروں کے سامنے پیش کیا جاتا ہے یا پولیس حراست کے دوران رپورٹرز ان سے سوالات کرتے ہیں، ایسے اقدامات ملزمان کے حقوق کی شدید خلاف ورزی ہیں اور فوجداری ٹرائلز کی شفافیت کو مجروح کرتے ہیں۔
عدالت نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو فوری اور مؤثر اقدامات کرنے کی ہدایت کی تاکہ اس قسم کی غیرقانونی روش کا خاتمہ کیا جا سکے۔
فیصلے میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو یاد دہانی کرائی گئی کہ انہیں اپنی رپورٹنگ کو خود ریگولیٹ کرنا چاہیے اور بین الاقوامی بہترین طریقہ کار کے مطابق معیاری طریقہ کار (ایس او پیز) اپنانے چاہئیں۔
عدالت نے ریگولیٹری اداروں کو ہدایت کی کہ وہ اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد ایسے ایس او پیز تجویز کریں جن کا مقصد تحقیقات کے دوران فریقین کے حقوق کا تحفظ ہو۔
عدالت نے اپنے دفتر کو ہدایت کی کہ فیصلے کی کاپیاں وزارتِ داخلہ، وزارتِ اطلاعات، پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) اور چاروں صوبوں کے چیف سیکریٹریز کو بھجوائی جائیں، تاکہ وہ مجرمانہ کارروائیوں میں شامل افراد کے حقوق کے تحفظ اور تحقیقات و ٹرائل کی شفافیت یقینی بنانے کے لیے فوری اقدامات کریں۔