پاکستان

القادر ٹرسٹ کیس: عمران خان اور بشریٰ بی بی نے سزا معطلی کی درخواست کی جلد سماعت کیلئے استدعا کردی

190 ملین پاؤنڈ کے القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کو بالترتیب 14 سال اور 7 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی

سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے منگل کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں 190 ملین پاؤنڈ کے القادر ٹرسٹ کیس میں سزا معطلی کی درخواست کی جلد سماعت کے لیے ایک اور درخواست دائر کردی، اس کیس میں دونوں کو بالترتیب 14 سال اور 7 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

بانی پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) عمران خان اور بشریٰ بی بی کو اس کیس میں رواں سال 17 جنوری کو سزا سنائی گئی تھی جس میں الزام ہے کہ اس جوڑے نے پچھلی پی ٹی آئی حکومت کے دوران برطانیہ کی طرف سے ملک کو واپس کیے گئے 50 ارب روپے ( 190 ملین پاؤنڈ) کو قانونی حیثیت دینے کے لیے بحریہ ٹاؤن لمیٹڈ سے اربوں روپے اور سیکڑوں کنال اراضی حاصل کی۔

27 جنوری کو، اس جوڑے نے فیصلے کے خلاف اسلام آباد سے رجوع کیا تھا، اور عدالت سے اپنی سزا کو کالعدم قرار دینے کی درخواست کی تھی اور اس بات پر زور دیا تھا کہ یہ فیصلہ قابل اعتماد شواہد سے محروم ہے اور طریقہ کار کی خامیوں کا شکار ہے۔

عمران خان کی جانب سے دائر کی گئی ایک درخواست میں، جس کی ایک کاپی ڈان ڈاٹ کام کے پاس دستیاب ہے، یہ درخواست کی گئی تھی کہ جلد از جلد سماعت مقرر کی جائے۔

درخواست میں قبل ازیں عمران خان کی جانب سے اس کیس میں سزا کے خلاف دائر کی گئی درخواست کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’ سزا کی معطلی کے لیے ایک درخواست دائر کی گئی تھی لیکن عدالتی پالیسی اور عدالت کے معمول کے مطابق اس کی سماعت نہیں کی گئی، جس سے درخواست دہندہ کو فوری سماعت کے اس کے آئینی حق سے محروم کیا گیا ہے۔’

اپیل میں جیل میں قید بانی پی ٹی آئی کی سزا کو ’ سیاسی انتقام’ کا نتیجہ قرار دیا گیا ہے۔

اپیل میں کہا گیا ہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) نے ’ اس معاملے میں خصوصی پراسیکیوٹر مقرر کرنے کے بہانے’ سزا کی معطلی کی سماعتوں میں ’ بار بار التوا مانگا ہے۔’

اپیل میں کہا گیا ہے کہ تعزیرات پاکستان کے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 426 کے تحت سزا کی معطلی کے لیے پہلے دائر کی گئی درخواست ، جس کی سماعتیں 15 مئی، 27 مئی، 5 جون اور 26 جون کو ہوئی تھیں ، نے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ سزا معطلی کی درخواست کی سماعت کی اصل تاریخ طے کی جائے گی لیکن ابھی تک کوئی مخصوص تاریخ نہیں دی گئی ہے۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ اگلی سماعت پر، خصوصی پراسیکیوٹر نے مزید وقت مانگا اور وکیل کو جلد تاریخ کی یقین دہانی کرائی، لیکن ابھی تک ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔

معاملات کی فوری نوعیت پر زور دیتے ہوئے، بیان میں کہا گیا کہ ’ معطلی کی درخواست کی تاریخ کے تعین میں کوئی قانونی یا طریقہ کار کی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے’ کیونکہ اس میں آئین کے آرٹیکل 9 کے تحت ایک شہری کی آزادی کا بنیادی حق شامل ہے، جس میں یہ شامل ہے کہ کسی بھی شہری پر مناسب قانونی عمل کے بغیر مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا۔

وکیل نے زور دیا کہ درخواست دہندہ کو آئین کے آرٹیکل 4 کے تحت اس کے بنیادی حق سے محروم کیا جا رہا ہے، جو ہر پاکستانی شہری کو قانون کے مطابق برتاؤ کرنے کو یقینی بناتا ہے ۔

اس میں مزید کہا گیا کہ درخواست دہندہ کے کیس کو بغیر کسی قانونی جواز کے ترجیح سے ہٹا دیا گیا ہے، حالانکہ ضمانت کے معاملات اور معطلی کی درخواستوں کو ترجیحی بنیادوں پر سننا ایک معیاری عمل ہے۔

اسی نوعیت کی ایک درخواست بشریٰ بی بی کی جانب سے بھی دائر کی گئی، جو اسی کیس میں سات سال کی سزا کاٹ رہی ہیں، اس میں کہا گیا کہ درخواست گزار ایک خاتون ہیں جنہیں ’ بد نیتی سے بار بار مقدمات میں گھسیٹا گیا’ ، اور ان پر 13 مختلف مقدمات بنائے گئے جن میں وہ بری ہو چکی ہیں۔

ان میں عدت کیس بھی شامل ہے جو ان کے سابق شوہر خاور فرید مانیکا نے دائر کیا تھا، جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی نے سابق خاتون اول ( بشریٰ بی بی ) کی عدت کے دوران شادی کی۔

درخواست میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ یہ تاخیر آئین کے آرٹیکل 4 کی خلاف ورزی ہے، خاص طور پر درخواست دہندہ کی جنس اور قانون کی حفاظتی دفعات کے پیش نظر جو خواتین کو ضمانت کے معاملات میں ترجیح دیتی ہیں۔

آرٹیکل 9 کے تحت درخواست میں کہا گیا کہ ایک خاتون ہونے کی وجہ سے اسلامی قوانین اور پاکستانی قانون کے تحت انہیں اضافی تحفظات حاصل ہیں، جو خواتین قیدیوں کے لیے نرمی اور ترجیحی سماعت کو لازمی قرار دیتے ہیں۔

دسمبر 2023 میں، قومی احتساب بیورو (نیب) نے عمران خان اور ان کی اہلیہ سمیت سات دیگر افراد کے خلاف القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کے سلسلے میں بدعنوانی کا ریفرنس دائر کیا تھا۔

نیب کی طرف سے دائر کردہ ریفرنس میں الزام لگایا گیا تھا کہ عمران خان نے ’ بحریہ ٹاؤن، کراچی کی طرف سے اراضی کی ادائیگی کے لیے مقرر کردہ ایک اکاؤنٹ میں پاکستان کی ریاست کے لیے مختص فنڈز کی غیر قانونی منتقلی میں اہم کردار ادا کیا۔’

ریفرنس میں یہ بھی کہا گیا کہ متعدد مواقع دیے جانے کے باوجود ملزمان نے دانستہ طور پر بدنیتی کے ساتھ معلومات فراہم کرنے سے انکار کیا اور مختلف بہانے بنائے۔