اسفند یار ولی نے شوکت یوسفزئی کےخلاف ہتک عزت پر ہرجانے کا دعویٰ جیت لیا
پشاور کی عدالت نے عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے سابق صدر اسفندیار ولی خان کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سابق صوبائی وزیر اور رہنما شوکت علی یوسفزئی کے خلاف دائر ہتکِ عزت کے مقدمے میں 10 لاکھ روپے ہرجانے کی ادائیگی کا فیصلہ سنایا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج لیاقت علی نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ مدعی اسفندیار ولی خان کے پاس قانونی طور پر دعویٰ کرنے کا جواز موجود تھا اور وہ ڈگری کے حق دار تھے۔
اگرچہ اسفندیار ولی نے 10 کروڑ روپے بطور ہرجانہ اور 5 کروڑ روپے بطور ایگریویٹڈ ڈیمیجز (شدید ذہنی اذیت و نقصان) کا مطالبہ کیا تھا، عدالت نے صرف 10 لاکھ روپے بطور عمومی ہرجانہ دینے کا حکم دیا۔
اسفندیار ولی خان نے پی ٹی آئی کے رہنما شوکت علی یوسفزئی کے خلاف اپنے وکلا طارق افغان اور ساجد آفریدی کے ذریعے مقدمہ دائر کیا تھا، شوکت یوسفزئی نے 25 جولائی 2019 کو ایک پریس کانفرنس میں الزام عائد کیا تھا کہ اسفندیار ولی نے پشتونوں کو ڈھائی کروڑ ڈالر میں بیچ دیا۔
عدالت نے اپنے 11 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں لکھا کہ کسی جماعت کے ایسے رہنما کے خلاف جھوٹا بیان، جس کا مرتبہ اسفندیار ولی خان جیسا ہو، نہ صرف اس رہنما کی ساکھ کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ اُن کے ہزاروں کارکنوں کے جذبات کو بھی ٹھیس پہنچاتا ہے، جو اپنے رہنما کو ایک اصول پسند اور باکردار انسان سمجھتے ہیں۔
اسفندیار کے وکلا نے عدالت کو بتایا کہ ان کے مؤکل معروف پشتون رہنما خان عبدالولی خان کے بیٹے اور باچا خان کے پوتے ہیں، جو تحریکِ آزادی کے بین الاقوامی سطح کے رہنما تھے۔
انہوں نے 4 بار قومی اسمبلی، ایک بار سینیٹ اور ایک بار خیبر پختونخوا اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے خدمات انجام دی ہیں۔
وکلا نے زور دیا کہ مدعا علیہ نے بدنیتی کے تحت یہ الزام لگایا تاکہ عوامی سطح پر ان کے مؤکل کی ساکھ کو نقصان پہنچایا جا سکے۔
دوسری جانب شوکت یوسفزئی نے عدالت کو بتایا کہ اسفندیار کا مقدمہ صرف انہیں ہراساں کرنے، ذلیل کرنے اور ذہنی اذیت پہنچانے کے لیے دائر کیا گیا ہے، انہوں نے یہ الفاظ صرف مرحوم محمد اعظم خان ہوتی (اے این پی کے رہنما) کے حوالے سے اخبارات اور ٹاک شوز میں دہرائے، اور یہ ان کی ذاتی رائے یا بیان نہیں تھا، اس لیے وہ ان الزامات کے ذمہ دار نہیں ٹھہرائے جا سکتے۔
تاہم عدالت نے قرار دیا کہ اخباری اقتباسات کے جائزے سے واضح ہے کہ مدعا علیہ نے کسی جگہ محمد اعظم ہوتی کے بیان کا حوالہ نہیں دیا، بلکہ صاف الفاظ میں کہا کہ ’اسفندیار ولی نے پشتونوں کو ڈھائی کروڑ ڈالرز میں بیچا‘۔
عدالت نے مشاہدہ کیا کہ جرح کے دوران خود مدعا علیہ نے تسلیم کیا کہ متعلقہ اخبارات میں محمد اعظم ہوتی کی طرف سے کوئی الزام نہیں لگایا گیا تھا۔
فیصلے میں لکھا گیا کہ ’مدعا علیہ خود ایک طویل عرصے تک پرنٹ میڈیا سے وابستہ رہے ہیں، اگر کوئی غلط یا ادھورا بیان ہوتا تو انہیں اس کی وضاحت کرنی چاہیے تھی‘۔
عدالت نے یہ بھی کہا کہ اگرچہ مدعا علیہ نے اپنے تحریری بیان اور دیگر مواقع پر مدعی اور اس کے خاندان کے لیے احترام کا اظہار کیا، جس کی بنیاد پر ہرجانے کی رقم میں کمی کی گئی، مگر ’یہ امر اپنی جگہ قائم ہے کہ مدعا علیہ کو ایسے الزامات لگانے سے گریز کرنا چاہیے تھا جن کے پیچھے ٹھوس شواہد موجود نہ ہوں‘۔
عدالت نے اس مؤقف کو کہ قانونی کارروائی محمد اعظم ہوتی کے خلاف ہونی چاہیے تھی، یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا کہ ’ایک ذمہ دار وزیر کو بغیر ثبوت کے ایسے سنگین الزامات عائد نہیں کرنے چاہئیں‘۔
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ عدالت نے پچھلے سال اس مقدمے کا یکطرفہ فیصلہ اسفندیار ولی کے حق میں دیا تھا، تاہم شوکت یوسفزئی کی درخواست پر مقدمے کو دوبارہ بحال کیا گیا اور انہیں اپنا مؤقف پیش کرنے کا موقع دیا گیا تھا۔