ٹرمپ انتظامیہ کا ایک بار پھر پاک-بھارت جنگ روکنے میں اہم کردار ادا کرنے کا دعویٰ
ٹرمپ انتظامیہ نے منگل کے روز ایک بار پھر اپنا یہ مؤقف دہرایا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مئی میں بھارت اور پاکستان کے درمیان ممکنہ ایٹمی تصادم کو روکنے میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔
پیر کے روز وائٹ ہاؤس میں اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو نوبیل امن انعام کے لیے نامزدگی کے حوالے سے ایک خط ان کے حوالے کیا۔
اس خط میں دیگر باتوں کے علاوہ تنازعات کو حل کرنے میں ٹرمپ کی ’فیصلہ کن سفارت کاری‘ کا بھی حوالہ دیا گیا۔
یہ علامتی تائید اس وقت سامنے آئی ہے جب اس بات کے واضح اشارے مل رہے ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ جنوبی ایشیا سے متعلق حکمتِ عملی کو احتیاط سے تشکیل دے رہی ہے اور علاقائی استحکام سے متعلق اپنا بیانیہ مضبوط کر رہی ہے جب کہ بھارت یا پاکستان کی موجودہ قیادت سے کسی بھی محاذ آرائی سے گریز کر رہی ہے۔
یہ بیانیہ اس وقت مزید واضح ہو گیا جب امریکی محکمہ خارجہ کی نیوز بریفنگ میں پہلی بار نہ صرف سیز فائر کے دعوے بلکہ سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان کی ٹرمپ کے دوسرے دورِ حکومت میں جاری حراست پر بھی بات کی گئی۔
جب ٹرمپ کے 2025 میں لائن آف کنٹرول پر سیز فائر میں کردار سے متعلق بھارتی حکام کی بار بار تردید کے بارے میں پوچھا گیا تو محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے کوئی واضح مؤقف اختیار کرنے سے گریز کیا، ان کا کہنا تھا ’بہت سی باتیں خود بولتی ہیں‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ ہماری جدید دنیا کی ایک اچھی بات ہے، لوگ خود دیکھ سکتے ہیں کہ درحقیقت کیا ہو رہا ہے اور آپ کو کسی تبصرے پر انحصار کرنے کی ضرورت نہیں کہ کیا واقعی ہوا‘۔
مزید پوچھے جانے پر ٹیمی بروس نے کہا کہ ’ہر کسی کی کوئی نہ کوئی رائے ہوتی ہے، کچھ رائیں غلط بھی ہو سکتی ہیں جب کہ میری رائے شاذ و نادر ہی غلط ہوتی ہے، لیکن دوسروں کی رائیں غلط ہو سکتی ہیں‘۔
یہ تبصرے اس کے چند گھنٹے بعد سامنے آئے جب ٹرمپ نے نیتن یاہو کے ساتھ اپنی مشترکہ پریس کانفرنس میں اس دعوے کو دوبارہ دہرایا کہ ’ہم نے بہت سے جھگڑے روکے‘۔
ان کا کہنا تھا ان میں سے ایک بہت بڑا جھگڑا بھارت اور پاکستان کا تھا، ہم نے وہ تجارت کے ذریعے روکا اور وہ جنگ شاید ایٹمی سطح تک جاچکی تھی جسے روکنا واقعی بہت ضروری تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکا نے دونوں حکومتوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے تجارتی مذاکرات معطل کرنے کی دھمکی دی تھی اور انہوں نے خود نئی دہلی اور اسلام آباد کی قیادت سے رابطہ کیا تھا۔
اس دوران انہوں نے آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر سے ہونے والی ملاقات کا بھی ذکر کیا جسے اس کشیدگی میں کمی کی کوشش کا حصہ بتایا۔
خیال رہے کہ جہاں اسلام آباد نہ صرف اس مؤقف کی تائید کر رہا ہے بلکہ گزشتہ ماہ ٹرمپ کے لیے نوبل انعام کی نامزدگی بھی جمع کرا چکا ہے، وہیں بھارت اس کی سختی سے تردید کرتا آ رہا ہے۔
بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو سے حالیہ ملاقات کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ صدر ٹرمپ کا سیز فائر سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
علاوہ ازیں، بھارتی حکام بارہا زور دیتے رہے ہیں کہ کشیدگی میں کمی داخلی سطح پر فوجی رابطوں کے ذریعے ہوئی تھی، کسی بیرونی ثالثی سے نہیں۔
تاہم ٹرمپ انتظامیہ نے بھارت کی اس تردید کی تصدیق کرنے سے گریز کیا۔